بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھنگ سے متعلق ’’مستدرک الوسائل‘‘ میں ذکر کردہ روایت کی تحقیق


سوال

 بھنگ سے  متعلق ’’مستدرک الوسائل‘‘میں ذکر کردہ روایت  درکار ہے۔

جواب

’’مستدرک الوسائل‘‘ میں  شیعہ مذہب کے  مصنّف  مرزا حسین نوری طبرسی (المتوفی : 1320ھ)   نے بھنگ سے متعلق دوسرے شیعہ مصنّف مرزا محمد باقر موسوی خوانساری (المتوفی : 1313ھ)کی کتاب ’’روضات الجنات‘‘سے   درج ذیل روایت بغیر کسی سند کے  نقل کی ہے: 

"وقال صلى الله عليه وآله: من أكل البنج فكأنما هدم الكعبة سبعين مرة، وكأنما قتل سبعين ملكا مقربا، وكأنما قتل سبعين نبيا مرسلًا، وكأنما أحرق سبعين مصحفًا، وكأنما رمى إلى الله سبعين حجرًا، وهو أبعد من رحمة الله من شارب الخمر، وآكل الربا، والزاني، والنمام".

"یعنی  حضور صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  جس نے بھنگ کا استعمال کیا اس نے گویا کعبہ کو ستر مرتبہ گرایا، سترمقرب ملائکہ کو قتل کیا، ستر انبیائے مرسلین کو شہید کر ڈالا،ستر قرآنوں کو جلا ڈالا، خداکی طرف ستر مرتبہ پتھر پھینکے، اوروہ (بھنگ خور) شرابی ،سود خور،زانی ،چغل خور کی نسبت خدا کی رحمت سے زیادہ دُور ہے۔"

(روضات الجنات في أحوال  العلماء والسادات (7/ 189)، ط/ مهر استوار قم، 1392ه)

(مستدرك الوسائل، باب نوادر ما يتعلق بأبواب الأشربة المحرّمة، برقم (5)  الأمير صدر الدين محمد بن غياث الدين منصو ر الدشتكي  الشيرازي في رسالة قبائح الخمر، (17/ 86)، ط/مؤسسة آل البيت لإحياء التراث)

مستدرك الوسائل  کے مذکورہ حوالہ سے واضح ہوتا ہے کہ’’روضات الجنات‘‘  میں مرزا محمد باقر موسوی خوانساری (المتوفی : 1313ھ) نے بھی اس روایت کو  أمير صدر الدين محمد بن غياث الدين منصو ر  دشتكي  شيرازی کے رسالہ’’قبائح الخمر‘‘سے نقل کیا ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے،  اسی لیے صاحبِ ’’مستدرک الوسائل‘‘نے بھی اس روایت کو نوادر کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے  ۔

خلاصہ یہ ہے کہ  اہل تشیع کے ہاں  بھی اس روایت کی کوئی سند   نہیں، جبکہ   اہل سنت کی کتب میں  بھی اس کی کوئی اصل نہیں ملی ،لہذا   کسی معتبر سند سے ثابت ہوئے بغیر اس کو رسول الله صلی اللہ علہ وسلم سے منسوب کرکے بیان کرنے سے  احتراز کیا جائے۔  فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412100955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں