بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھنگ پینے کے فورا بعد اذان دینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص بھنگ پینے کے فورًا بعد اذان دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  مستحب یہ ہے کہ مؤذن ایسے شخص کو بنایا جائے جو نیک، تقویٰ دار، سنتوں کا پابند ہو، فاسق شخص کو مؤذن بنانا مکروہ ہے، لہذا صورتِ مسئولہ ميں  اگر      بھنگ پینے والاشخص بھنگ پینے کے  فوراً بعد اذان دے تو اگر وہ   نشہ میں ہو، تو ایسی حالت میں اذان دینا مکروہ ہے، اور اذان کا لوٹانا بہتر ہے، تاہم اگر نشے کی حالت میں نہیں ہےاور کلماتِ اذان مکمل اور درست ادا کرے تو اذان لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

فتاویٰ عالمگیری   میں ہے:

"وينبغي أن يكون المؤذن رجلا ‌عاقلا ‌صالحا تقيا عالما بالسنة»...

ويكره أذان السكران ويستحب إعادته. كذا في التبيين...

ويكره أذان الفاسق ولا يعاد. هكذا في الذخيرة".

(کتاب الصلوۃ، ‌‌الباب الثاني في الأذان ، الفصل الأول في صفة الأذان وأحوال المؤذن، ج:1، ص:53، ط: رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:  

’’و منها ـ أي من صفات المؤذن ـ أن يكون تقياً؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم : «الإمام ضامن، و المؤذن مؤتمن» ، و الأمانة لا يؤديها إلا التقي. (ومنها) : أن يكون عالما بالسنة لقوله - صلى الله عليه وسلم -:: «يؤمكم أقرؤكم، و يؤذن لكم خياركم» ، و خيار الناس العلماء.‘‘

(کتاب الصلوۃ ،ج:1، ص:150، ط:دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"و ذكر الشارح أن إعادة أذان المرأة والسكران مستحبة فصار الحاصل على هذا أن العدالة والذكورة والطهارة صفات كمال للمؤذن لا شرائط صحة فأذان الفاسق والمرأة والجنب صحيح حتى يستحق المؤذن معلوم وظيفة الأذان المقررة في الوقف ويصح تقرير الفاسق فيها وفي صحة تقرير المرأة في الوظيفة تردد لكن ذكر في السراج الوهاج إذا لم يعيدوا أذان المرأة فكأنهم صلوا بغير أذان  فلھذاكان عليهم الإعادة وهو يقتضي عدم صحته وينبغي أن لايصح أذان الفاسق بالنسبة إلى قبول خبره والاعتماد عليه لما قدمناه من أنه لايقبل قوله في الأمور الدينية كما صرح به الشارح، وأما العقل فينبغي أن يكون شرط صحة فلايصحّ أذان الصبي الذي لا يعقل والمجنون والمعتوه أصلًا."

(کتاب الصلوۃ،أذان الجنب وإقامته وأذان المرأة والفاسق والقاعد والسكران،ج:1،ص:278 ،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و يحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة".

(کتاب الکراھیة،457/6،ط:سعيد)

 

مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

"افیون ، چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کادوامیں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے،تجارت توشراب اورخنزیرکی حرام ہے کہ ان کااستعمال خارجی بھی ناجائزہے۔"

(کفایت المفتی 9/129،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں