بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھنگ کے پتے کپڑوں کو لگنے کی صورت میں کپڑؤں کے ناپاک ہونے کا حکم


سوال

اگر بھنگ کے پتے کپڑوں پر لگ جائیں  تو کیا کپڑے ناپاک ہوں گے ؟کیوں کہ اس میں بھی تو نشہ ہوتا ہے لہذا اس کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بھنگ اگرچہ  نشہ کے لیے استعمال کی جائے توحرام ہے،   لیکن فی نفسہ اس کے پتے  پاک ہیں،  اس لیے کپڑوں  پر لگنے  سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے   ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: المراد بما أسكر كثيره إلخ من الأشربة، وبه عبر بعضهم وإلا لزم تحريم القليل من كل جامد إذا كان كثيره مسكرا كالزعفران والعنبر، ولم أر من قال بحرمتها، حتى إن الشافعية القائلين بلزوم الحد بالقليل مما أسكر كثيره خصوه بالمائع، وأيضا لو كان قليل البنج أو الزعفران حراما عند محمد لزم كونه نجسا؛ لأنه قال ما أسكر كثيره فإن قليله حرام نجس، ولم يقل أحد بنجاسة البنج ونحوه. وفي كافي الحاكم من الأشربة: ألا ترى أن البنج لا بأس بتداويه، وإذا أراد أن يذهب عقله لا ينبغي أن يفعل ذلك. "

(كتاب الحدود، باب حد الشرب المحرم ،ج:4، ص:42، ط:سعيد)

الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أن البنج طاهر؛ لأنهم يشترطون لنجاسة المسكر أن يكون مائعا."

 (مادة النج، ج:8، ص:218، ، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"البنج: نبت مسبت، معروف غير الحشيش، مخبط للعقل، مجنن، مسكن لأوجاع الأورام والبثور ووجع الأذن، وأخبثه: الأسود، ثم الأحمر، وأسلمه: الأبيض..وقد اشتهر الآن في العرف إطلاق البنج على الحشيشة، ومن هذا قد يتوهم بعض الجهال قول الفقهاء: إنه لا يقع الطلاق من زال عقله بشيء مباح كالبنج ولبن الرماك إباحة الحشيشة، وهو باطل، فإن البنج غير الحشيشة كما ذكرنا.الخامس: في أنها طاهرة أو نجسة، وهذا يبتني على ما سبق من أنها مسكرة، فإن قياس من يقول بإسكارها أن يقول بنجاستها، لكن الشيخ تقي الدين بن دقيق العيد قطع بأنها طاهرة، وحكى الإجماع عليه، قال: والأفيون وهو لبن الخشخاش."

 (كتاب الحدود، ‌‌باب بيان الخمر ووعيد شاربها، ج:6، ص:441، ط:دار النوادر، دمشق)

فتاوی دارالعلوم دیوبند کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"افیون اور بھنگ وغیرہ نجس نہیں ہے،  بلکہ ان کا کھانا  پینا حرام ہے، اور تھوڑی مقدار بغرض تداوی کھانا پینا جائز ہے جو کہ حد سکر کو نہ پہنچے ۔" 

(کتاب الطہارتم باب الانجاس، ج:1، ص:147، ط:دارالاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں