بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھنگ کے احکام


سوال

بھنگ کے احکام بیان کریں۔

جواب

بھنگ نشہ کی غرض سے  استعمال کرنا حرام ہے، اور مقدارِ نشہ سے کم بھنگ کا دوا میں استعمال جائز ہے، اور اسی مقصد کے لیے اگر اس کی کاشت اور  خرید و فروخت کی جائے تو اس کی گنجائش ہے، اگر کسی شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اس کو لہو لعب، اور تلہی کے لیے استعمال کرے گا تو  اس کو بھنگ بیچنا مکروہِ تحریمی ہوگا۔

حکومت کی طرف سے  بھنگ وغیرہ کی کاشت پر پابندی ہے، اور آج کل اس کا عام استعمال  جائز کام میں نہ ہونے کے برابر ہے، لہذا اس کو کاروباری مشغلہ بنانے اور اس کی کاشت کاری سے اجتناب کیا جائے۔ نیز اس کی زراعت سے زمین دیگر فصلوں کے لیے قابلِ زراعت بھی نہیں رہتی، لہٰذا جہاں اس کی کاشت کی وجہ سے غذا کی قلت پیدا ہو تو وہاں خصوصاً اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ غذا دوا سے مقدم ہے۔ (فتاویٰ حضرت الشیخ البنوری، ومفتی ولی حسن ٹونکی رحمہما اللہ)  اور اگر ان اشیاء  کا استعمال کسی دوائی وغیرہ میں کرنا مقصود ہو اور مستند ڈاکٹر اس دوائی کو تجویز کرے تو بطورِ علاج ان اشیاء کے استعمال کی اجازت ہوگی اور اسی مقصد کے لیے خرید وفروخت کرنا بھی درست ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و يحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة". (457/6)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 454):
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل". 

وفیه أیضاً (6/ 457) :
"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة".  

وفیه أیضاً (6/ 391) :
"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں