بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن بھائیوں کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

والد صاحب وفات پا گئے ہیں ،بھائی اپنی پڑھائی کے ساتھ گھر کے اخراجات مشکل سے پورا کر رہا ہے اور  صاحب نصاب بھی نہیں ہے، کیا بڑی بہن شادی شدہ یا غیر شادی شدہ   اپنی ذاتی کمائی سے اپنے بہن بھائیوں  کو جو غیر شادی شدہ ہوں زکوۃ دے سکتی ہے، بہن بھائی صاحب نصاب نہیں ہیں، والد کے نام ایک اڑھائی مرلےکا گھر ہے جو کہ سب کی وراثت ہے جس کے کرایے سے گھر کے اخراجات میں مدد ملتی ہے اس لیے اس کو بیچنے کا کسی کا ارادہ نہیں ہے۔

جواب

 بہن بھائیوں کو  جو  صاحب نصاب نہ ہوں زکوۃ دینا نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے ، البتہ اس کو مشترکہ کھانے پینے اور اخراجات وغیرہ میں استعمال نہ کیا جائے۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا ‌إلى ‌الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الزکوۃ،الباب السابع فی المصارف، ج:1،ص:190،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں