بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کے درمیان قطع تعلقی کا حکم


سوال

  1 بچی جس کی عمر تقریباً 8، 9 سال تک ہے ،اس کے ساتھ اس کے تایا زاد بھائی نے زبردستی کرنے کی کوشش کی ،اس سے پہلے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا لڑکی کے والد وہاں پہنچ گئے، اور اسے برا بھلا کہتے ہوئے اپنی بیٹی کو واپس لے آئے، اب اس واقعے کو تقریبًا 5 یا 6 سال ہونے کو ہیں، اور لڑکے کے والد  اپنے بھائی سے کئی بار معافی مانگ چکے ہیں، لیکن لڑکی کے والد معاف نہیں کر رہے ،اب وہ لڑکے کے گھر والےان کے گھر آنا جانا کر رہے ہیں ،  لیکن لڑکی کے والد ان کے گھر نہیں جاتے تو کیا یہ قطع تعلق میں آتا ہے ؟ اور اب وہ اپنے دوسرے بیٹے کے لیے لڑکی کی بڑی بہن کا رشتہ مانگ رہے ہیں، اور لڑکی کے والد انکار کر رہے ہیں حالاں کہ وہ لڑکا اچھا ہے ،تو کیا انکار کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃًمذکورہ شخص کی بیٹی کے ساتھ اس کے بھتیجے نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی،تو لڑکی کے والد کے لیے اپنےبھتیجے سے قطع تعلق کی گنجائش ہے،لڑکے کے والد کی معافی کا کوئی اعتبار نہیں، اگر لڑکا توبہ کرتا ہے،اور معافی مانگ لیتا ہے،تو پھر چچا کو چاہیے کہ وہ اسے معاف کردے،لیکن اپنی  بڑی بیٹی کا رشتہ دینا اس پر لازم نہیں ہے،یہ اس کی صواب دید پر منحصر ہے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرضهذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.».....قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ج:8، ص:146، ط: دارالفکر)

بذل المجہود میں ہے:

"عن أبي ذر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أفضل الأعمال: الحب في الله، والبغض في الله) أي من يحبه لا يحبه إلا لله، ومن يبغضه لا يبغضه إلا لله، فيبغض عدوه ومخالفه وعاصيه، ومنهم أهل الأهواء، ويحب من يطيعه ويواليه......قال الخطابي : فيه من العلم أن تحريم الهجرة بين المسلمين أكثر من ثلاث إنما هو فيما يكون بينهما من قبل عتب وموجدة، أو لتقصير يقع في حقوق العشرة ونحوها، دون ما كان من ذلك من حق الدين، ‌فإن ‌هجرة ‌أهل ‌الأهواء والبدعة دائمة على مر الأوقات والأزمان ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(كتاب السنة، باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، ج:13، ص 10، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں