بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا آپس میں ظلم


سوال

میرے پانچ بھائی ہیں تین بھائی اپنی بیویوں کے ساتھ میرے اور میرے بیوی اور بچوں کے مخالف ہیں اورہم سے سخت نفرت کرتے ہیں اور ماں باپ  کو بھی ہمارے خلاف کرتے ہیں،  بھائی اپنی بیویوں کے کہنے پر مجھ پر اور میری بیوی پر الزام تراشیاں کرتے ہیں، ابھی یہ تیاری کررہےہیں والدین کی کچھ زمین ہے ،اس میں حصہ نہیں لینے دیں گے، اس پر مجھے شریعت کیا اجازت دیتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں آپ کو  چاہیے کہ آپ حتی الوسع اپنے بھائیوں سے اچھے طریقے سے پیش آئیں اور ان  سے تعلق کو نہ توڑیں، بلکہ جس قدر ممکن ہو ان کے حقوق ادا کرتے رہیں ، البتہ اگر آپ کے بھائی آپ پر ظلم کریں یا آئندہ آپ کو   میراث کے حق سے محروم کریں تو اس  پر قانونی چارہ جوئی کرنے کا آپ کا حق ہے۔ باقی آپ کے والدین زندہ ہیں تو وہ اپنی  زندگی میں اپنی جائیداد میں تصرف میں خود مختار ہیں، تاہم اگر وہ زندگی میں کسی بیٹے یا بیٹی کو کچھ دیتے ہیں تو ان پر لازم ہوگا کہ ہدیہ دینے میں سب اولاد میں برابری کریں، کسی  معتبر وجہ کے بغیر اولاد میں سے کسی کو زیادہ دینا یا کسی ایک کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں ہوگا۔ ہاں اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ خدمت کرنے یا علم میں فضیلت رکھنے یا محتاج ہونے کی وجہ سے نسبتًا زیادہ دیا تو اس کی اجازت ہوگی۔

بھائیوں کا آپس میں  ایک دوسرے پر ظلم کرنا  قطع رحمی ہے ، اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔  حدیث میں ہے:

"عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لایدخل الجنة قاطع. متفق علیه." (مشکوٰة:419)
ترجمہ:’’حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘۔

"عن أبي بکرة قال: قال رسول الله ﷺ ما من ذنب أحریٰ أن یعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنیا مع ما یدخرله في الآخرة من البغي وقطیعة الرحم."

(أبوداود وترمذي، مشکوٰة:420)

ترجمہ:”حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کودنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو  زنا کرنا اور دوسرا ناتاتوڑنا“۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں