بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو الحجة 1446ھ 04 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا ایک دوسرے کی مدد کرنا کیا انہیں ایک دوسرے کی ذاتی ملکیت میں شریک بنا دیتا ہے؟


سوال

ایبٹ آباد میں چار بھائی رہتے تھے، ان میں سے ایک بھائی تقریبا اٹھارہ سال پہلے کراچی آیااوریہاں پراس نے اپنا ذاتی گھر بنایا،اوریہیں رہنےلگا، ان چاروں  کوایبٹ آباد میں وراثت میں جوزمین ملی ہے وہ ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی،  اسی طرح گاؤں میں یہ چاروں بھائی ابھی تک نفع و نقصان (یعنی  ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوتے ہیں، اور قرض اد ا کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں)کے اعتبارسے الگ نہیں ہوئے، توسوال یہ ہے کہ:

جس بھائی نے کراچی میں اپنا ذاتی گھر بنایا ہے، وہ گھرا س کی ذاتی ملکیت شمار ہوگی یا اس میں دوسرے بھائیوں کابھی حق ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جس بھائی نےکراچی میں اپنی ذاتی آمدن سے گھر بنایا ہے وہی اس کا مالک ہے، اس گھرمیں دوسرے بھائیوں کا حق نہیں ہے۔

التفسیرالکبیر میں ہے:

"وأما سائر الأسباب الموجبة للملك فهي الإرث، والهبة، والوصية، وإحياء الموات، والالتقاط، وأخذ الفيء والغنائم، وأخذ الزكوات وغيرها. ولا طريق إلى ضبط أسباب الملك إلا بالاستقراء."

(سورة التوبة، ج: 16، ص: 155،156، ط: دار إحیاء التراث العربي)

بذل المجہود میں ہے:

"{لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ}،فهذا يدل على أن الملك لا يحصل إلا بتمليك عن المالك بسبب من ‌أسباب ‌الملك."

(أول كتاب البيوع، باب: فيمن أحيا حسيرا، ج: 11، ص: 252، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن ‌أسباب ‌الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد لا لجفاف على المباح الخالي عن مالك."

(‌‌كتاب الصيد، ج: 6، ص: 463، ط: دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضا:

"والحقوق هاهنا خمسة بالاستقراء لأن الحق إما للميت أو عليه أو لا ولا: الأول التجهيز والثاني إما أن يتعلق بالذمة وهو الدين المطلق أو لا وهو المتعلق بالعين والثالث إما اختياري وهو الوصية أو اضطراري وهو الميراث.

(قوله أو بالضروري) أي الإرث والاختياري كالبيع والشراء وقبول الهبة والوصيةِ."

(‌‌كتاب الفرائض، ج: 6، ص: 757،758، ط: دارالفکر بیروت)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"تقسم الشركة بصورة مطلقة إلى قسمين. أحدهما: شركة الملك، وتحصل بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب والثاني: شركة العقد، وتحصل بالإيجاب والقبول بين الشركاء...  ويوجد سوى هذين القسمين شركة الإباحة، وهي كون العامة مشتركين في صلاحية التملك بالأخذ والإحراز للأشياء المباحة التي ليست في الأصل ملكا لأحد كالماء."

‌‌(الكتاب العاشر الشركات، المقدمة في بيان بعض الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالشركة، ج: 3، ص: 6، ط: دارالجیل)

وفیہ ایضا:

"شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث أو بخلط، واختلاط الأموال يعني بخلط الأموال بعضها ببعض بصورة لا تكون قابلة للتمييز والتفريق أو باختلاط الأموال بتلك الصورة بعضها ببعض."

(‌‌(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملک، الفصل الأول: في بيان تعريف وتقسيم شركة الملك، ج: 3، ص: 15، ط: دارالجیل)

وفیہ ایضا:

"لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي...

قد قيدت هذه المادة بقوله (بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع، والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة يحق أخذ مال الغير."

(مقدمة، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج: 1، ص: 98، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں