بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا مشترکہ گھر میں حصہ


سوال

دو بھائیوں نے مل کر ایک پلاٹ انیس سو  پچانوے میں خریدا ، پھر اس کو تعمیر کرنے کے لیے دونوں بھائیوں کی شرکت سے گراؤنڈ فلور تعمیر ہوا ، ان دو بھائیوں میں سے بڑے بھائی کا انتقال2011ء  میں ہو چکا تھا، جن کی بیوہ اور بچے حیات ہیں ،اب چھوٹے بھائی کو حصہ چاہیے ،جب کہ گھرا بھی تک بڑے بھائی کے نام پر ہے،  چھوٹے بھائی کا کیا حصہ بنے گا؟بڑے بھائی کے ورثاء: ایک بیوہ ، چار بیٹے  اور تین بیٹیاں ،والدین کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب دونوں بھائیوں نے مل کر پلاٹ خریدا تھا اور دونوں نے مل کر تعمیرات کی تھی تو دونوں بھائی پلاٹ اور تعمیرات میں اپنی اپنی رقم کے تناسب سے شریک تھے ، لہذا چھوٹے بھائی کا اس پلاٹ اوراس پر بنائی گئی  تعمیرات میں اتنا ہی حصہ ہے جتنی فیصد رقم اس نے پلاٹ اور تعمیرات میں لگائی تھی ، بڑے بھائی کی جائیداد اس کے ورثاء (بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیوں) میں تقسیم کی جائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے  کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو  (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) اسے  ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد  منقولہ و غیر منقولہ کو  88 حصوں میں تقسیم کرکے اس میں سے11 حصے مرحوم کی بیوہ کو،  14 حصے مرحوم کے ہر  ایک بیٹے کو اور 7 حصے مرحوم کی ہر  ایک بیٹی کو ملیں گے۔

میت 8 / 88

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
1114141414777

لہذا کل ترکہ میں سے12.50مرحوم کی بیوہ کو ،15.90 فیصد مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو ،7.95  مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔شامی میں ہےـ:

«ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي»

(رد المحتار، كتاب الفرائض 6/ 774 ط : سعید)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144303100162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں