بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بھائی نے اپنے ذاتی سرمایہ سے ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی تو اس میں دیگر بھائیوں کی شرکت کاحکم


سوال

ہم چھ بھائی ہیں اور ایک ساتھ رہ رہے ہیں ،1996 میں ، میں دبئی چلاگیا اور وہاں ایک سرکاری کمپنی میں ملازمت کرنے لگا اور وہاں سے میں نے جو پیسے کمائے اس سے میں نے ایک بڑی گاڑی خریدی اور اپنا کاروبار شروع کیا، 2006 میں نےکمپنی چھوڑی تو کمپنی والوں کی طرف سے مجھے مزید  40 ہزاد درھم بونس کے طور پر ملے جس سے میں نےمزید ایک گاڑی اور خریدی اورکچھ عرصہ بعد گاڑیوں کی تعداد 10 کے قریب ہوگئی اور میری ٹرانسپورٹ کی کمپنی نے مزید ترقی کی ،میری اس کمپنی میں سارا سرمایہ میرا ہے اور میرے بھائیوں نے کاروبار کی دیکھ بھال میں میری معاونت کی ہے لیکن بھائیوں اور میرے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ، البتہ میں بھائیوں کو خرچہ دیتا رہا ، چناں چہ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ ٹرانسپورٹ کمپنی مکمل طور پر کس کی ملک ہو گی ؟نیز کیا میرے بھائی میرے ساتھ شریک ہوں گے اس میں ؟

وضاحت : مذکورہ کاروبار میں سارا سرمایہ سائل کا ہے بھائیوں کا کوئی سرمایہ اس شامل نہیں ہے نہ ہی سائل اور اس کے بھائیوں کے درمیان شراکت کا کوئی معاہدہ ہواتھا ،سائل کے بھائی چھوٹے تھے والدصاحب کے انتقال کے بعد سے سائل کفالت کررہا تھا ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  سائل کے بیان کے مطابق سائل  کے ٹرانسپورٹ کے  کاروبار میں اس  کے  بھائیوں  نے عملی معاونت  کی  ہے، جب کہ سائل کا  ان کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ نہیں  ہوا تھااور سارا سرمایہ بھی سائل کا تھا  تو شرعًا  بھائیوں  کی یہ معاونت   تبرع شمار ہوگی،   سائل نےجو اس ٹرانسپورٹ کے  کاروبار سے جو ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی ہے اس کا مالک سائل ہے اور   اس   میں  بھائیوں  کا کوئی  حصہ نہیں ہے ،البتہ سائل     کو چاہیے   کہ اپنے بھائیوں   کوبطورِ  احسان   کچھ نہ کچھ   دے دے  تاکہ انہوں نے جو محنت کی ہے اس اعتبار سے ان کی حق تلفی اور  دل آزاری نہ ہو ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينًا له."

(4/325، کتاب الشرکة، فصل في الشرکة الفاسدۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں