بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کو زکاۃ کی رقم دینا


سوال

میرا بڑا بھائی ہمارے  ساتھ  آبائی گھر میں رہتا ہے، ان کے گھر کا زیادہ تر خرچہ اور بچوں کے سکول کی فیس کپڑے وغیرہ اکثر میں اور میرا چھوٹا بھائی ادا کرتے ہیں،  کیوں کہ بھائی کی کوئی مستقل نوکری یا کاروبار نہیں ہے،   کچھ  کرتا بھی ہے تو اکثر نقصان ہی کر جاتا ہے،  وہ ایک لوکل صحافی کے طور ایک نیوز چینل چلاتا ہے،  اسی کے ذریعے اگر اشتہارات کی مدمیں  کوئی کچھ دے جاتا ہے تو  وہی اس کی کمائی ہے، اس کی بیوی کے پاس دو تولہ سونا بھی ہے جو بیوی کی ملکیت ہے، اسی کے نام ہے۔ ان کے پاس ایک عدد گاڑی ہے جو  2013 میں لی تھی، اس وقت کوئی 7 لاکھ کے لگ بھگ ہوگی، جس میں 5 لاکھ میرے دیے ہوئے ہیں ،  گاڑی اسی کے زیر استعمال ہے ۔ بھائی پر قرضہ ہے تو کیا میں اپنی زکاۃ پوری کی پوری بھائی کو دے سکتا ہوں؛ تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کرسکے؟

جواب

اگر آپ کے بھائی زکاۃ کے مستحق ہیں، تو آپ کا انہیں زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ اس میں دوہرا ثواب ہے، ایک زکاۃ کی ادائیگی کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔

مستحق ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر ہو، اور آپ ہاشمی (سید/ عباسی) نہ ہوں۔

ایسی صورت میں قرض کی ادائیگی کے لیے آپ انہیں زکاۃ دے سکتے ہیں ۔

البتہ  ان کانیوز چینل چلانا اور جان دار کی تصاویر یا غیر شرعی امور پر مشتمل اشتہارات کے ذریعہ رقم حاصل کرنا جائز نہیں ہے؛   کیوں کہ یہ شعبہ جان دار کی تصویر سازی، ویڈیوز، اور موسیقی وغیرہ  جیسے شرعی ممنوعات سے پاک نہیں ہے۔ اس کے بجائے انہیں کسی حلال ذریعہ معاش کی کوشش  میں لگنا  چاہیے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (2 / 346):

"وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، أما التطوع فيجوز بل هو أولى كما في البدائع وكذا يجوز خمس المعادن لأن له حبسه لنفسه إذا لم تغنه الأربعة الأخماس كما في البحر عن الإسيبجابي وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى لأنه صلة وصدقة".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (4 / 42):

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم ؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض والله أعلم هذا الذي ذكرناه إذا دفع الصدقة إلى إنسان على علم منه بحاله أنه محل الصدقة ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں