بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کو زکوٰة دینا


سوال

 میری بیوی پر زکوٰۃ واجب ہے،  جو مجھے ادا کرنا ہوتی ہے کیونکہ میری بیوی کے پاس زکوٰۃ ادا کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔جبکہ میرے تین بھائی ہیں جن میں سے دو بھائی کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائی کر رہے ہیں اور وہ دونوں بالغ ہیں اور شہر سے باہر ہاسٹلز میں رہتے ہیں اور ان کی پڑھائی کا زیادہ تر خرچ بھی مجھے برداشت کرنا پڑتا ہے،  جس وجہ سے زکوٰۃ اور فیسیں اکٹھی ادا کرنا میرے لیے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔کبھی کبھار مہینے دو مہینے بعد بھائی گھر چکر لگاتے ہیں جہاں والدین بھی ہیں۔اور گھر میں سب کا کھانا وغیرہ اکٹھا ہوتا ہے۔ کیا میں اپنی بیوی کی زکوٰۃ کے پیسے اپنے ان دو بھائیوں کو پڑھائی کی فیس اور ہاسٹل کے خرچ کی مد میں دے سکتا ہوں۔ یا پھر زکوٰۃ کے پیسے اپنی بیوی کو دے دوں اور وہ زکوٰۃ کی نیت سے میرے بھائیوں کو فیس ادا کرنے کیلئے دے دے تو کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے  مذکورہ بھائی اگر مستحق زکوٰة  ہوں، یعنی  بھائی  کی ملکیت میں نصاب کے بقدر نہ سونا  ہو، اور نہ چاندی ہو، نہ کچھ سونا کچھ چاندی جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا زائد ہو، اور نہ ہی ضرورت سے زائد نقدی جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا زائد بنتی ہو، اور نہ ہی ضرورت سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے مساوی ہو،اور وہ سید نہ ہوں تو پھر سائل اپنے بھائیوں کو اپنی یا اپنی بیوی کی  زکوٰة  دے سکتا ہے۔

نیز زکوٰة دیتے وقت نیت کرنا ضروری ہوگا، بھائیوں زکوٰة کا بتانا ضروری نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٩٠، ط: دار الفكر )

وفیہ ایضا:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر )

وفیہ ایضا:

"ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411100125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں