بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کو زکوۃ دینا


سوال

میرے بھائی کی اتنی حیثیت نہیں ہے ، مالی طور پر کمزور ہے،  مالی پریشانی کا سامنا رہتا ہے،  اس کے پاس اتنا پیسہ بھی جمع نہیں ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو ، نہ اس پر قربانی فرض بنتی ہے۔ مگر اس کی بیوی کے پاس سونا اتنا ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہے  ہم ساتھ رہتے ہیں مگر میرا کچن الگ ہے ۔  ایسی صورت میں میں اپنے بھائی کو زکوٰۃ دے سکتا ہوں ۔ میرا بھائی امی ابو کے ساتھ کھانا کھاتا ہے مطلب امی ابو کے ساتھ کچن شامل ہے ۔ کبھی کبھار ہم سب مل کر ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں میں اپنے بھائی کو زکوٰۃ دے سکتا ہوں ۔

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے، سواری  وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر)  مال یا  کسی بھی قسم کا سامان موجود  نہ ہو  اور وہ  ہاشمی (سید/ عباسی)  نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے لہذ ا صورت مسئولہ میں سائل کے بھائی  کے پاس اگر ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو سائل اس کو زکوۃ دے سکتا ہے اس میں دوہرا اجر ہے اس لیے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی کا بھی اجر ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض والله أعلم."

(کتاب الزکوۃ , فصل رکن الزکوۃ جلد 2 ص: ۵۰ ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں