بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی یا بیٹے کو قرض اتارنے کے لیے زکات دینا


سوال

 میرا  چھوٹا بھائی ہے،  جو مدرسے میں پڑھ رہا ہے اور دین کی تعلیم حاصل کر رہا ہے ،  اس نے اپنے ضروریات کے لیے  دوستوں سے قرض لیا ہے ، اب وہ قرض ختم کرنے کے لیے  کمپنی میں کام کرتا ہے،  جب کہ میرے والد صاحب لوگوں کو زکوۃ کے پیسے دیتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ:  کیا میرے بھائی پر بھی زکوۃ ہو سکتی ہے،  جس سے وہ اپنا قرضہ ختم کر سکے،  جب کہ وہ گھر سے ہی کھاتا پیتا ہے اور کام کاج نہیں کرتا،  کیا اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں ؛تاکہ وہ کمپنی میں کام نہ کرے اور چھٹیوں میں اپنی نماز وغیرہ میں مشغول رہے۔

جواب

واضح رہے کہ  زکات  اپنے اصول (والدین دادا/دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع(اولاد، پوتے /پوتی، نواسے/ نواسی وغیرہ) کو  دینا جائز نہیں ہے، اس لیے اگر آپ کا  بھائی  زکات کا  مستحق ہو  تب بھی آپ کے والد کے لیے اس کو  زکات دینا جائز نہیں ہوگا، البتہ  اگر آپ  خود صاحبِ نصاب ہیں اور اپنے مستحق  بھائی کو قرض کی ادائیگی کے لیے  اپنی   زکات دینا چاہتے ہیں  تو آپ اس کو  زکات کی رقم مالک بناکر دے  سکتے ہیں،   بلکہ اس کو  زکات کی رقم دینا زیادہ باعث ثواب ہوگا، زکات کی ادائیگی کا ثواب الگ اور رشتہ داری کا لحاظ رکھنے اور صلہ رحمی کرنے کا ثواب الگ۔

الفتاوى الهندية (1 / 188):

"و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں