بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

والد کی جگہ ملازم مقرر ہونے کی صورت میں کمائی کا حکم


سوال

میرے والد ایک جگہ ملازمت کرتے تھے،والد  صاحب جب ریٹائر ہوئے تو مجھے اس ملازمت پر  رکھوادیا،میں نے تقریبا 33 سا ل کام کیا ،اب میں بھی ریٹائر ہوچکا ہوں اور میں نے اپنے بیٹے کو اس جگہ بھرتی کروادیا۔

میں نے ملازمت کے عرصہ میں جتنا مال کمایا ہے،میرا بھائی کہتا ہے میرابھی اس میں حصہ بنتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ بھائی کا میرے کمائے ہوئے مال میں حصہ ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سائل کو اس ملازمت کے لیے مقرر کیا تو سائل نے اپنی ملازمت کے دوران  جو کمایا ہے وہ سائل کا حق ہے، کسی اور بھائی کا اس میں شرعا حصہ   نہیں ہے، اور سائل سے اس کمائی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ۔ البتہ اگر سائل اپنی مرضی سے اپنے بھائی کو کچھ دےدے تو سائل کو اجازت ہے ۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے: 

"والأصل أن الربح إنما يستحق عندنا إما بالمال وإما بالعمل وإما بالضمان."

(کتاب الشرکة ،ج:6،ص:62،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق."

( باب التعزیر،ج:2 ،ص:167،ط:رشیدیہ)

کفایۃ المفتی میں ہے:

"جب لڑکوں نے جدا جدا کمایااور جدا جدا جائیداد بنائی تو ہر ایک اپنی جائیداد کا جداگانہ مالک ہوگا، صرف ہم طعام ہونے سے جائیداد مشترک نہیں ہوجاتی، ہاں باپ کا ترکہ قاعدہ وراثت کے مطابق سب وارثوں میں تقسیم ہوگا۔                          

(کفایت المفتی،کتاب الفرائض ، ج:8، ص:284،ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101842

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں