بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی دکان سنبھالنے کے بعد اس کی ملکیت کا دعوی کرنا


سوال

میری راولپنڈی میں  ذاتی دوکان ہے، سپئیر پارٹس کی جس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہے،  آج سے دس سال پہلے میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو دوکان کا کام سکھا کر اپنی راولپنڈی والی دوکان میں کام کے لیے  بٹھایا اور خود آزاد کشمیر آبائی گاؤں میں آ کر مزدوری شروع کر دی، چھوٹے بھائی نے دوکان اچھے طریقہ سے چلائی اور دوکان سے پیسے کما کر گھر پر بھی خرچہ دیتا رہا اور دوکان میں بھی پیسے لگاتا رہا، اب دس سال بعد جب اس کی شادی ہوئی تو جھگڑا یہ بن گیا کہ یہ دوکان کس کی ہے؟ براے مہر بانی دوکان کی ملکیت کے بارے شرعی حکم واضح فرما دیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی دکان میں اپنا سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا اور پھر بعد میں اس کاروبار کو چلانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کو اس دکان پر بٹھایا اور قانونی و شرعی طور پر ہبہ کرکے دکان اس کی ملکیت و قبضے میں نہیں دی تو اس صورت میں چھوٹے بھائی کی حیثیت معاون ومدگار  کی ہے، اور  دکان اور سرمایہ سب آپ ہی کی ملکیت ہے، چھوٹے بھائی کا اس پر ملکیت کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق."

(2/167، باب التعزیر،ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے :

"لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينًا له."

(4/325، کتاب الشرکة، فصل في الشرکة الفاسدۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں