بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی بیوی کو عمرے کے لیے لے کر جانا / بغیر محرم کے عمرہ ادا کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص عمرہ کر نے جاتا ہے ساتھ میں اپنی بیوی، اپنے بیٹے اور اُس کی بیوی کولے کر،  اور اپنے بھائی کی بیوی کو بھی لے کر جاتا ہے،  تو یہ بھائی کی بیوی بھی اُن کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے سفرِ شرعی کی مسافت (78 کلو میڑ ) یا اس سے زیادہ بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا، جائز نہیں ہے۔

 لہذا  صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے بھائی کی بیوی، محرم کے نہ ہونے کی بناء پر مذکورہ افراد کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کے لیے نہیں جاسکتی، اگر چلی گئی تو عمرہ کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگا اور بغیر محرم کے سفر کرنے کا علیحدہ گناہ ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"وحدثنا محمد بن رافع. حدثنا ابن أبي فديك. أخبرنا الضحاك عن نافع، عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، ‌إلا ‌ومعها ‌ذو ‌محرم"."

(كتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره، ٢/ ٩٧٥، ط: دار إحياء التراث)

"ترجمہ: یعنی جو عورت ﷲ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتی ہو  اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر تین رات کا سفر کرے ۔"

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها: المحرم للمرأة) شابةً كانت أو عجوزاً."

(كتاب المناسك، الباب الأول، ١/ ٢١٨، ط: دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) مع (زوج أو محرم) ولو عبدا أو ذميا أو برضاع (بالغ) قيد لهما كما في النهر بحثا (عاقل والمراهق كبالغ) جوهرة ... ولو حجت بلا محرم جاز مع الكراهة.

وقال عليه في الرد: (قوله ومع زوج أو محرم) هذا وقوله ومع عدم عدة عليها شرطان مختصان بالمرأة ... والمحرم من لا يجوز له مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو صهرية كما في التحفة ... (قوله مع الكراهة) أي التحريمية للنهي في حديث الصحيحين «لا تسافر امرأة ثلاثا إلا ومعها محرم» زاد مسلم في رواية «أو زوج» ط."

(كتاب الحج، ٢/ ٤٦٤-٤٦٥، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں