بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی بیوہ سے نکاح کے بعد اُس کے بچوں کو اپنی ولدیت دینا / کیا زبانی نکاح کے بعد نکاح نامہ بنوانا ضروری ہے؟


سوال

(1) دو بچوں کے والد صاحب کا انتقال ہوا، بچوں کی ماں نے اُن کے چچا (اپنے دیور) سے شادی کرلی۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کے شناختی کارڈ بنتے وقت ولدیت کے خانے میں اُن کے چچا کا نام لکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟

(2) بچوں کے والد کے انتقال کے بعد جب اُن کے چچا نے اُن کی والدہ سے شادی کی، تو اُس نے اپنے مرحوم بھائی کے نکاح نامے میں شوہر کی جگہ مرحوم کا نام ہٹاکر اپنا نام لکھ دیا، تو کیا یہ جائز ہے؟ اور یہ گناہ میں تو نہیں آئے گا؟ اور کیا یہ نکاح نامہ کافی ہے یا دوسرا بنانا ضروری ہے؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ مذکورہ شخص نے ایک مولوی صاحب سے باقاعدہ ایجاب وقبول کرکے نکاح پڑھوایا تھا، البتہ علیحدہ نکاح نامہ نہیں بنوایا، بلکہ پرانے نکاح نامے میں ہی تبدیلی کردی کہ سابقہ شوہر (اس کے بڑے بھائی) کا نام مٹاکر اپنا نام لکھ دیا۔ نیز اُس شخص کے مرحوم بھائی کے نام پر ہی اُن کا گھر ہے۔

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچوں کے شناختی کارڈ بنواتے وقت ولدیت کے خانے میں اُن کے چچا (جو کہ اُن کے سوتیلے والد ہیں) کا اپنا نام لکھوانا درست نہیں ہے، بلکہ ولدیت کے خانے میں اُن کے حقیقی والد کا نام لکھوانا ہی ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بچے کو اُس کے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا  جائز نہیں ہے، تاہم اُن بچوں کا چچا، سرپرست (Guardian)   کے خانے میں اپنا نام لکھوا سکتا ہے۔

(2)شرعاً تو نکاح کے صحیح ہونے کے لیے فقط اتنا ضروری ہے کہ دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایسے ہی ایک مرد اور دوعورتوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول کرلیا جائے، نکاح منعقد ہونے کے لیے تحریری نکاح نامہ بنوانا شرعاً ضروری نہیں ہے، تاہم شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے عوام الناس کی مصلحت ومفاد کی خاطر  حکومت جو اصول وقوانین بناتی ہے، اُن کی پاسداری کرنا عوام پر واجب  ہے، نیز مباح عمل میں گناہ وثواب کا دار ومدار عمل کرنے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کے سابقہ نکاح نامے سے اپنے مرحوم بھائی کا نام مٹاکر اپنا نام اس نیت سے لکھا تھا کہ اُسے بیوی کو نیا مہر نہ دینا پڑے، یا  اس کے علاوہ  لوگوں اور حکومت کو دھوکہ دے کر کسی فاسد غرض کے حصول کے لیے ایسا کیا تھا، تو یہ جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں وہ گناہ گار ہوگا، اور اس کے ذریعہ سے اگر کسی کو مالی نقصان پہنچایا، تو اُس کی تلافی کرنا بھی ضروری ہوگا۔

نیز شرعاً تو مذکورہ شخص کا گواہوں کی موجودگی میں اپنے بھائی کی بیوہ سے ایجاب وقبول کرکے نکاح کرلینا کافی ہے، شرعاً نکاح منعقد ہونے کے لیے تحریری نکاح نامہ بنانا ضروری نہیں ہے، تاہم قانونی طور پر انتظامی مصلحت کے پیشِ نظر کسی عورت سے شادی کرتے وقت نکاح نامہ بنوانا، اور اُس میں عورت کی ازدواجی حیثیت (کنواری، مطلقہ یا بیوہ) ہونے کی صراحت کرنا ضروری ہے، اور یہ قانون شریعت سے متصادم بھی نہیں ہے؛ لہذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ ملکی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے مذکورہ نکاح کا نیا نکاح نامہ بنوائے، جس میں تمام کوائف کا درست اندارج کرے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }."

[سورۃ الأحزاب: ٤، ٥]

ترجمہ:  "اور  تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا  (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا،  یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں، اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔"  (از بیان القرآن)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"لا يجوز انتساب الشخص إلى غير أبيه، ‌وعد ‌ذلك بعضهم من الكبائر لما أخرج الشيخان، وأبو داود عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلّى الله تعالى عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام۔ وأخرج الشيخان أيضا من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله تعالى والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله تعالى منه صرفا ولا عدلا۔ وأخرجا أيضا ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلم إلّا كفر."

(‌‌سورة الأحزاب: ١١/ ١٤٧، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركن النكاح فهو الإيجاب والقبول. وذلك بألفاظ مخصوصة، أو ما يقوم مقام اللفظ ... ومنها الشهادة وهي: حضور الشهود ... قال عامة العلماء: إن الشهادة شرط جواز النكاح ... (ولنا) ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا نكاح إلا بشهود» وروي «لا نكاح إلا بشاهدين» وعن عبد الله بن عباس - رضي الله عنهما - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «الزانية التي تنكح نفسها بغير بينة» ولو لم تكن الشهادة شرطا لم تكن زانية بدونها ... وأما صفات الشاهد الذي ينعقد به النكاح وهي شرائط تحمل الشهادة للنكاح فمنها: العقل ومنها البلوغ ومنها الحرية ... ومنها سماع الشاهدين كلام المتعاقدين جميعا حتى لو سمعا كلام أحدهما دون الآخر أو سمع أحدهما كلام أحدهما والآخر كلام الآخر لا يجوز النكاح؛ لأن الشهادة أعني حضور الشهود شرط ركن العقد، وركن العقد هو الإيجاب والقبول فيما لم يسمعا كلامهما لا تتحقق الشهادة عن الركن فلا يوجد شرط الركن - والله أعلم -."

(كتاب النكاح، فصل ركن النكاح، ٢/ ٢٢٩، ٢٥٢، ٢٥٥، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال ... كتزوجيني نفسك إذا لم ينو الاستقبال."

(كتاب النكاح، ٣/ ١١، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح۔

قال عليه في الرد: (قوله: وشرط حضور شاهدين) أي يشهدان على العقد."

(‌‌كتاب النكاح: ٣/ ٢١، ط: سعید)

ہدایہ میں ہے:

"(ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف)، قال رضي الله عنه: اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام: لا نكاح إلا بشهود.''

(کتاب النکاح، ١/ ١٨٥، ط: دار احياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لأن طاعة أمر السلطان بمباح واجبة."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، ٥/ ١٦٧، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة."

(كتاب الأشربة، ٦/ ٤٦٠، ط: سعيد)

مسلم فیملی لاء آرڈیننس مجریہ 1961ء میں ہے:

"5: Registration of marriages. :-

(1) Every marriage solemnized under Muslim Law shall be registered in accordance with the provisions of this Ordinance.

[(2) For the purpose of registration of marriages under this Ordinance, the Union Council shall grant licenses to one or more persons, to be called Nikah Registrars.]

(3) Every marriage not solemnized by the Nikah Registrar shall, for the purpose of registration under this Ordinance, be reported to him by the person who has solemnized such marriage.

Amendment in section 5 of Ordinance VIII of 1961.– In the said Act, in section 5:

(a):for subsection (2), the following shall be substituted: “(2) For the purpose of registration of marriages under this Ordinance, the Union Council shall grant licenses to one or more persons, to be called Nikah Registrars.”

(b): after subsection (2), the following subsection (2A) shall be inserted: “(2A) The Nikah Registrar or the person who solemnizes a Nikah shall accurately fill all the columns of the Nikahnama form with specific answers of the bride or the bridegroom”."

(Section 5 of MFLO-1961, published by: The Manager of publications, government of pakistan)

ہمارے عائلی مسائل میں ہے:

"جہاں تک اس دفعہ کا تعلق ہے، تو وہ غالباً اُن مفاسد کو دور کرنا ہے، جو بغیر رجسٹری کئے ہوئے نکاحوں میں پیش آتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس مقصد کی افادیت اور اچھائی سے کون انکار کرسکتا ہے؟ ۔۔۔ نکاح کو رجسٹر نہ کرانے پر جو سزا کا حکم دیا گیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نگاہ میں ایسا نکاح تسلیم کرلیا جائے گا۔ اگر واقعہ یہی ہے اور خدا کرے ایسا ہی ہو، تو ہم اس دفعہ کو خلافِ شرع نہیں کہہ سکتے، مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مقررہ سزا اس کے لیے مناسب نہیں ۔۔۔الخ"

(دفعہ ٥، نکاح کا رجسٹریشن، ص: ٧٩، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں