بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی بیٹی گود لینے کا حکم


سوال

میں 6 سال سے بے اولاد ہوں، کیا بھائی کی بیٹی گود لے سکتی ہوں؟ ان کی پہلے تین بیٹیاں ہیں، میرے شوہر راضی نہیں ہو رہے ہیں کہ باہر سے اولاد لے لیں گے، بھائی سے نہیں لیں گے، 6 سال میں انہوں نے اپنا کوئی علاج نہیں کروایا، نہ ہی کوئی وظیفہ کیا، جب کہ میں نے ہر لحاظ سے کوشش کی ہے، اس کے بعد اب میں تھک کر یہ فیصلہ کرنا چاہتی ہوں، کیوں کہ وہ بھی میرا اپنا ہی خون ہے، باہر سے لے کر پردہ کے احکام ہوں گے اس لیے، مجھے بتائیں میں کیسے فیصلہ کروں؟

جواب

اللہ تعالیٰ نےدنیاکی  ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی، بلکہ اس میں فرق رکھا ہے، جس کو جو چاہا نعمت عطا کر دی، ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر آنا ضروری نہیں، چناں چہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے،لہٰذا اگر آپ اپنے بھائی کی بیٹی گود لینا چاہیں تو  لے سکتی ہیں، یا اگر باہر سے گود لینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، بہر صورت باہمی رضامندی اور مشاورت سے فیصلہ کرنا ہی بہتر ہے، تاہم  اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا۔

 اس میں  اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر  گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت یا قریب البلوغ کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی،  البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو  وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا،  اسی طرح اگر بچی گود لی ہو  تو  شوہر  کی بیوی یا بہن وغیرہ اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے ، باقی اگر آپ اپنے بھائی کی بیٹی گود لیں تو پردہ کے مسائل  پھر بھی ہوں گے،آپ کے شوہر اس کے نامحرم ہیں،بڑی ہوجانے کے بعد پردہ لازمی ہوگا۔ 

تیسرا یہ کہ وراثت کے معاملہ میں بھی لے پالک کو حقیقی اولاد کا درجہ حاصل نہیں ہوتا اور وراثت میں ان کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے :

"﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (٤) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ ‌أَقْسَطُ ‌عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (٥) ﴾ ."[الأحزاب: 4-5] 

ترجمہ: "اورتمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا)  بیٹا نہیں بنادیا ، یہ صرف  تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ۔تم ان کو ان کے باپوں  کی طرف منسوب کیا کرو یہ سب اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجائے تو اس کچھ گناہ نہیں لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کر کے کرو ،اوراللہ  تعالی غفور و رحیم  ہے ۔"(بیان القرآن)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاہے :

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "من ادعى إلى غير أبيه، أو ‌انتمى ‌إلى ‌غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة."

(كتاب الأدب، باب في الرجل ينتمي إلي غير مواليه، ج:7، ص:437، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو "۔

نیز اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اور مسلسل اس سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، کہ اس کی رحمت سے کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ کئی سالوں بعد اولاد کی نعمت سے نواز دے، حضرت ابراہیم اور حضرت زکریا علیہما السلام دونوں کو کافی عرصہ بعد اللہ نے اولاد کی نعمت عطا فرمائی تھی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں