بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کا نفقہ کس پر لازم ہے؟


سوال

میرا بڑا بھائی  ۔۔۔  جو کہ بچپن سے نانی کے گھر میں رہا۔  الحمد للہ نانا کی کافی جائیداد تھی۔  نانی لوگ میرے بڑے بھائی کو سپورٹ کرتے تھے۔  اور سپورٹ کا رزلٹ یہ نکلا کہ وہ بچپن سے اپنی من مانی کرنے لگا۔ اسکول اس نے نہیں پڑھا۔ کام کاج کو اس نے توجہ نہیں دی ۔ کام کاج نہ ہونے کے باوجود اور میرے والد مرحوم کے منع کرنے کے باوجود میری نانی نے اس کی شادی کروا دی ۔جیسا کہ آج کل ہر گھر میں رواج ہے کہ شادی کروا کر سر پر بوجھ پڑے گا تو  خود ہی کام کرے گا ۔لیکن ایسا نہ ہوا ۔ اس کو نانا کی جائیداد میں سے ہم بہن بھائیوں سے زیادہ حصہ ملا اس وقت بھی اس نے کام یا کسی کاروبار کو توجہ نہیں دی۔ بس یار باش بن گیا تھا۔  آہستہ آہستہ سب کچھ فروخت کر کے مستی میں کھانے لگا ۔ پھر دوسری شادی بھی کر لی اس نے اور دوسری شادی کے بعد تو بالکل ہی سب جائیداد سے فارغ ہوگیا۔ اب اصل مسئلہ یہ  ہےکہ ہٹا کٹا ہونے کے باوجود بھی یہ کوئی کام نہیں کرتا ۔ مجھ پر اور میری ایک خالہ ہے ہم دونوں پر بوجھ بنا ہوا ہے سالوں سے سگریٹ کے خرچے سے لے کر گھر کے دال ساگ تک سب ہم پر بوجھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری خالہ کو بہت عطا فرمایا ہے وہ الحمد للہ افورڈ کر سکتی ہے۔ لیکن میں نوکر پیشہ ہوں۔ پہلے تو میں بھی کر لیتا تھا۔ لیکن یہ دوسرا مہینہ ہے اسی کی بدولت میں کافی قرض دار ہوگیا ہوں اس کی ضروریات پوری کرنے کے چکر میں۔ جیسا کہ آپ صاحبان کو پتہ ہے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔ میں اپنی موجودہ تنخواہ سے اپنے گھر کا بجلی گیس راشن پورا نہیں کرپا رہا ۔ تو اس کو کہاں سے سپورٹ کروں۔  میری  دو اور  خالائیں ہیں  وہ کافی مالدار ہیں، لیکن وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتیں۔  مجھے پوچھنا یہ تھا کہ میں اب کافی قرض دار ہوگیا ہوں۔ میں اس کی مدد نہیں کر سکتا تو مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا۔ یہ کافی صحت مند اور تندرست ہے لیکن کام نہیں کرتا ۔ بچپن سے تیار کا عادی ہوچکا ہے۔ میں تقریباً قسطوں قسطوں میں 4 یا 5 لاکھ کا قرض دار ہو چکا ہوں  صرف اس بڑے بھائی کی وجہ سے۔ ان دو امیر خالاؤں  کو بھی اس کے تمام حالات کی خبر ہے،  پھر بھی مالی امداد نہیں کرتیں۔  ان کے لیے قرآن اور حدیث میں کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ بچے جب تک نابالغ ہوں ان کا خرچہ والد کے ذمہ لازم ہے اور جب بالغ ہوجائیں اور کمانے کے قابل ہوجائیں تو اس کا خرچہ والد یا بھائی بہنوں پر لازم نہیں ہوتا۔

 صورتِ مسئولہ میں  سائل کے بھائی کا خرچہ کسی کے ذمے لازم نہیں ہے اور اگر سائل کے بھائی کی سائل یا اس کی خالائیں مدد کرتی ہیں  تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہے، ان کے ذمہ یہ لازم نہیں ہے ، سائل کے بھائی کو چاہیئے کہ اپنے لیے محنت کر کے اپنی زندگی کا گزر بسر کرے اور کسی پر بوجھ نہ بنے اور اگر سائل اس کی مدد نہیں کرتا تو وہ عند اللہ گناہ گار نہ ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ.........ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق ، الفصل الرابع فی نفقة الاولاد جلد ۱ ص : ۵۶۲ ، ۵۶۳  ط : دارالفکر)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب."

(کتاب النکاح ، باب نفقة ذوي الارحام جلد ۵ ص : ۲۲۳ ط : دارالمعرفة ۔بیروت)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره اهـ."

(کتاب الکفالة جلد ۱ ص : ۲۸۸ ط : دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں