بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی کا بھابی کے ساتھ مل کر طلاق کی سازش کرنا پھر خود مطلقہ سے نکاح کرنا


سوال

میرے ایک بھائی کے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے ہوتے رہتے تھے تو ہمارے ایک دوسرے بھائی نے  ان کی بیوی کے ساتھ مل کر ان سے طلاق دلوائی اور ان کی بیوی کو سپورٹ کرتا رہا،طلاق کے الفاظ "تجھے طلاق، طلاق" کے ہیں،  جب طلاق دلوائی تو تین ماہ دس دن بعد اس سے خود شادی کرلی، جب ہم نے ان سے کہا  تو  قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں نے اس میں کوئی سازش نہیں ہے، اب ہمیں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

وضاحت: مذکورہ گھر والوں سے لڑائی ہے جس کی وجہ سے عدت پوری ہوئی ہے یا نہیں، اس کا معلوم نہیں ہوسکتا۔  

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی کے مذکورہ جملے "تجھے طلاق، طلاق" کہنے سے شرعاً اس کی بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئیں ، البتہ اگر اس کی بیوی نے  بلاوجہ طلاق لی اور اس میں واقعۃ سائل کے بھائی  کی بھی سازش تھی وہ دونوں عند اللہ سخت مجرم ہیں اور حدیث شریف میں بھی طلاق دلوانے کے بارے میں ممانعت وارد ہوئی ہے، البتہ اگر سائل کے بھائی نے 3 ماہ دس بعد جب شادی کی اور اس وقت اگر مطلقہ کی عدت ( تین ماہواریاں ) پوری ہوچکی تھی  تو یہ نکاح کرنا صحیح ہوگا اور اگر عدت پوری نہیں ہوئی تو پھر یہ نکاح درست نہیں ہو گا۔ 

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تسأل المرأة ‌طلاق ‌أختها لتستفرغ صحفتها ولتنكح فإن لها ما قدر لها»۔"

(کتاب النکاح، باب إعلان النکاح، ص:271، ج:2، ط:قدیمی)

ترجمہ:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "عورت (کسی شخص سے)  اپنی کسی (دینی) بہن کے بارے میں یہ نہ کہے کہ اس کو طلاق دے دو اور اس عوت کو طلاق دلوانے کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس کے پیالہ کو خالی کردے (یعنی اس کو طلاق دلوا کر اس کے سارے حقوق خود سمیٹ لے) اور اس کے خاوند سے خود نکاح کرلے، کیوں کہ اس کے لیے وہی ہے جو اس کے مقدر میں لکھا جاچکا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا

(فصل فی حکم الطلاق، کتاب الطلاق، ص:291، ج:4، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لايوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا۔"

(کتاب النکاح، باب المهر، ص:132، ج:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں