بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی بہن اور بھتیجوں ،بھتیجیوں اوربھانجوں،بھانجیوں کو زکات دے سکتے ہیں یا نہیں ؟


سوال

بھائی بہن اور بھتیجوں ،بھتیجیوں  اور بھانجوں،بھانجیوں  کو زکات دے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  بہن ،بھائی، بھتیجے،بھتیجیاں ، بھانجے اور بھانجیاں  اگر زکاۃ کے مستحق ہیں یعنی ان کی ملکیت میں  ضرورتِ اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہیں تو ان کو  زکات  دینا جائز ہے,بلکہ ان کو زکاۃ دینے میں دوہرا اجر ہے، زکاۃ کا بھی، اور صلہ رحمی کا بھی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة.

وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب."

(کتاب الزکاۃ،[باب مصرف الزكاة والعشر](2 / 346)، ، ط: سعید)

فتاویٰ عالم گیری میں ہے :

"‌لا ‌يجوز ‌دفع ‌الزكاة ‌إلى ‌من ‌يملك ‌نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

(كتاب الزكاة ،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:189،ط:دارالفکر )

فتاویٰ شامی میں ہے :

"وفي المبسوط: ‌لا ‌يجوز ‌دفع ‌الزكاة ‌إلى ‌من ‌يملك ‌نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي ومنقطع الحج لقوله - عليه الصلاة والسلام - «يجوز دفع الزكاة لطالب العلم وإن كان له نفقة أربعين سنة» . اهـ. (قوله: من أن طالب العلم) أي الشرعي (قوله: إذا فرغ نفسه) أي عن الاكتساب."

(كتاب الزكاة ،باب مصرف الزكاة والعشر،ج:2،ص:340 ،ط:سعيد)

التفسیر المظہری میں ہے :

"لا يَسْئَلُونَ النَّاسَ ‌إِلْحافاً إلحاحا وهو ان يلازم المسئول منه حتى يعطيه- والمعنى انهم لا يسئلون غالبا ولاجل هذا يحسبهم الجاهل بحالهم اغنياء وتعرف حاجتهم بسيماهم وان سالوا عن ضرورة أحيانا لم يلحفوا."

(تفسير سورة البقرة ،آية:273،ج:1،ص:392 ،ط:رشيدية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و لايدفع الي بني هاشم وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداىة".

(کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصرف،ج:1،ص:189،ط:رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وبنو ‌هاشم الذين تحرم عليهم ‌الصدقات آل العباس، وآل علي، وآل جعفر، وآل عقيل، وولد الحارث بن عبد المطلب كذا ذكره الكرخی."

(كتاب الزكاة، فصل شرائط ركن الزكاة، ج:2، ص:49، ط:دار الكتب العلمية وغيرها)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں