بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکی سے قطع تعلق کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ تقریبا بیس سال پہلے ایک دیندار گھرانے کی عالمہ لڑکی گھر سے بھاگ کر ایک ایسے لڑکے سے شادی کرلیتی ہے جو دیندار تو تھا نہیں نشہ وغیرہ کا بھی عادی تھا ظاہر ہے کہ اس واقعہ سے پورا گھر نہایت شدید صدمہ میں مبتلا ہوگیا جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا جبکہ لڑکی کا یہ حال تھا کہ احساس جرم ہونا تو دور کی بات، الٹا چوری اور سینہ زوری والا معاملہ تھا ، چنانچہ بجائے  اس کے  کہ وہ معافی تلافی کرتی اس نے نہایت بدتمیزی سے اپنے گھر والوں سے بات کی اور ایسی نفرت انگیز باتیں خطوط میں لکھیں اور فون پر کیں حتی کہ گھر والوں پر گھٹیا اور رکیک قسم کے الزامات تک سے گریز نہیں کیا ، جس کی بناء پر گھر والوں کو اس سے اتنی شدید تکلیف ہوئی اور ایسی نفرت ہوئی کہ وہ اس کے تصور سے بھی نفرت کرنے لگے۔

مگر کچھ عرصہ بعد لڑکی اور اس کے شوہر کو غلطی کا احساس ہوا،  تو اب وہ دوبارہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں مگر اب لڑکی کے گھر والے اس سے ذرہ برابر تعلق نہیں رکھنا چاہتے ہیں اور شوہر بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا اگرچہ نماز وغیرہ میں غفلت ہے اور وضع بھی فاسقوں والی ہے مگر نشہ وغیرہ نہیں کرتا۔لیکن دین اور دینداروں سے نفرت نہیں رکھتا اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹوں میں سے ایک کو عالم بنارہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا گھر والوں کا لڑکی سے قطع تعلق صحیح ہے؟

کیا اس قطع تعلق پر وہ وعیدیں تو نہیں صادق آئیں گی جو کسی دنیوی وجہ سے مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنے اور قطع رحمی کرنے پر وارد ہوئی ہیں؟

اگر نہیں تو کس طرح تفصیل سے بیان فرمائیں۔

اور کیا لڑکی کے گھروالوں کا یہ کہنا کہ لڑکی اور اس کے شوہر سے قطع تعلق شرعی سبب کی بنیاد پر ہے  ۔

اور وہ یہ کہ :

1شوہر فاسق ہے ۔

2دوسرے یہ کہ رسول اللہ علیہ الصلاة و السلام کا وحشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ عمل کہ آپ نے اپنے سامنے آنے سے منع کردیا تھا۔

اس کو دلیل بنانادرست ہے؟

اگر درست ہے تو کس طرح ؟

کیوں کہ اس پر بندہ کو اشکال ہے:  فاسق ہونے پر یہ کہ پھر تو تمام فساق سے تعلق توڑ لینا  چاہیے، جب کہ  ایسا ہرگز نہیں ہے۔

اور وحشی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں سوال یہ ہے کہ کہیں اللہ کے رسول کے ساتھ یہ عمل خاص تو نہیں تھا؟

اور  زید جو کہ لڑکی کابھائی ہے، اس کا یہی کہنا ہے کہ قطع تعلق درست نہیں بجائے اس کے ان سے تعلق جوڑ کر ان کو دین کی دعوت دی جائے ۔

تو اس پر دیگر گھروالوں اور بھائیوں کا شدید ردعمل ہوتا ہے ۔۔

حتی کہ یہ دھمکی تک دی جاتی ہے کہ اگر اس سے تعلق رکھا تو ہم سے توڑنا ہوگا ۔

تو گھروالوں کا یہ عمل کون سی دلیل شرعی سے درست ہوسکتا ہے؟

نیز ایسی صورت میں زید گھروالوں کی مرضی سے چلے یا ہر حال میں تعلق قائم کرلے؟

اور کیا گھروالوں کی مرضی کے مطابق چلنے سے  زید تو گناہ گار نہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ بالغہ لڑکی کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے نکاح کی ذمہ داری اپنے ولی کے سپرد کرے،  پس  والدین کی مرضی کے بغیر بھاگ کر پسند کا نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے،  جس سے گریز کرنا چاہیے، تاہم اگر کسی لڑکی نے والدین کی مرضی کے بغیر ایسا کرلیا، اور شرعی ضابطہ کے مطابق گواہوں کی موجودگی میں لڑکا اور لڑکی نے ایجاب و قبول کرلیا ہو تو اس صورت میں ایسا نکاح شرعًا منعقد ہوجاتا ہے،  جس کے بعد دونوں ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتےہیں، اور نکاح منعقد ہو جانے کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا موجب ملامت نہیں رہتا، اور  نہ ہی قطع تعلق کا باعث ہوتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ  خاتون کا طرز عمل بد اخلاقی پر مبنی تھا، تاہم اپنے  کیے پر نادم و شرمندہ ہونے اور معافی مانگنے کے باوجود اس سے قطع تعلق رکھنا، یا خاندان کے دیگر افراد کو قطع تعلق کرنے پر مجبور کرنا شرعًا جائز نہیں۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت سے قطع تعلق پر استدلال کرنا درست نہیں، کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت وحشی سے قطع تعلق روا نہیں رکھا تھا، بلکہ آپ صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم  نے انہیں اپنے سامنے آنے سے منع کیا تھا، تاکہ حضرت حمزہ کی شہادت کا غم تازہ نہ ہو، ( کیوں کہ غم کا تازہ ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ایذا کا باعث ہے، جو کہ از روئے قرآن مجید دنیا میں موجب لعنت اور آخرت میں موجب عذاب مہین ہے، گویا کہ حضرت وحشی  رضی اللہ عنہ کو اپنے سامنے آنے سے منع کرنا، ان کو عذاب سے محفوظ رکھنے کی وجہ سے تھا )۔

رہی بات فاسق سے تعلقات رکھنے کی تو جاننا چاہیے کہ فاسق دو قسم کے ہیں:

 "فاسقِ معلن"  (اعلانیہ فاسق)  وہ شخص ہے، جو علی الاعلان کبائر کا ارتکاب کرتا ہو ، اور توبہ تائب بھی نہ ہوتا ہو،  تو  اگر قطع تعلق سے اس کی اصلاح کی توقع ہو تو اس سے تعلقات قطع کردینے  چاہیے؛ تاکہ وہ اس گناہ سے باز آئے، اگر قطع تعلق کے باوجود وہ باز نہ آتاہو تو اس سے تعلقات خود نہ بڑھائے جائیں،  بوقتِ ضرورت لین دین کے معاملات جائز ہوں گے۔

" فاسق غیر معلن"  وہ شخص ہے جو اعلانیہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرتا ہو، تاہم اس کے بارے میں  فسق میں مبتلا ہونے کا  گمان ہو،  تو ایسے شخص کو  اپنی اصلاح کرنی چاہیے، تاہم عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کے بارے  میں اچھا  گمان رکھیں، اور بد گمانی سے بچیں، لہذا صورت مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص نشہ کرنا چھوڑ چکا ہے، اور اپنے بچوں کو بھی دینی تعلیم دلوا رہا ہے، اگرچہ اس کا اپنا حلیہ و وضع قطع تاحال صالحین والی نہیں ہے، اور نمازوں میں کچھ سستی  ابھی باقی ہے، تو ایسی صورت میں اسے درست سمت پر لانے اور صالحین کے ماحول سے جوڑنے کے لیے اس سے تعلقات استوار کرنا شرعًا ممنوع نہیں، جائز ہے بلکہ اس سے قطع تعلقی اختیار کرنے کی صورت میں قطع تعلقی کا گناہ ملےگا۔

منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري  میں ہے:

"قال: فهل تستطيع أن تغيب وجهك عني " يعني: فطلب منه أن لا يواجهه خوفا من أن يثير مشاعره عليه".

( كتاب المغازي، باب قتل حمزة رضي الله عنه، ٤ / ٣٤٤، ط: مكتبة دار البيان، دمشق)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"(قوله ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة بحر"

( كتاب النكاح، باب الولي، ٣ / ٥٥، ط: رد المحتار على الدر المختار)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط، كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم وهذا إذا كان لها ولي فإن لم يكن صح النكاح اتفاقا، كذا في النهر الفائق "

( كتاب الطلاق، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، ١ / ٢٩٢، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما، وقد هجر نساءه شهرا وهجرت عائشة ابن الزبير مدة، وهجر جماعة من الصحابة جماعة منهم، وماتوا متهاجرين، ولعل أحد الأمرين منسوخ بالآخر.

قلت: الأظهر أن يحمل نحو هذا الحديث على المتواخيين أو المتساويين، بخلاف الوالد مع الولد، والأستاذ مع تلميذه، وعليه يحمل ما وقر من السلف والخلق لبعض الخلف، ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى".

( كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ٨ / ٣١٤٧، ط: دار الفكر - بيروت)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"ويكره السلام على الفاسق لو معلنا وإلا لا 

(قوله: لو معلنا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرًا لهم."

( كتاب الحظر و الإباحة، فصل البيع، ٦ / ٤١٥، ط: دار الفكر - بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں