بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا والد کی جائیداد کی تقسیم میں ٹال مٹول کرنا


سوال

میرے والد اور والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میرے والد کو کچھ زمین اپنے والد کی طرف سے وراثت میں ملی ہے اور کچھ زمین خود خریدی ہے ، اب ہم چار بھائی اور پانچ بہنیں ہیں اور ایک ہماری پھوپھی ہے،شریعت کے مطابق ہماری زمین کے حصے بنا کر دیں ۔

ہم سب بہنیں، بھائیوں سے زمین کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن بھائی ٹال مٹول کر رہے ہیں اور زمین تقسیم کرکے نہیں دے رہے، شریعت کے مطابق اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے مال  میں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے ، اس کے انتقال کے بعد اس  کا تمام مال ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا ،کسی وارث کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی دوسرے وارث کو اس کے شرعی  حق سے محروم کردے،اوراگر  کسی وارث نے  اس طرح کیا تو قرآن وحدیث میں اس عمل  پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں    ۔

نیز میراث کی تقسیم میں بہتر اور مناسب یہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے میراث تقسیم کردی جائے  ،کیوں کہ بلا  وجہ میراث کی تقسیم میں تاخیر سے الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ورثاء تقسیم کا مطالبہ کر رہے ہیں تو والد  کی متروکہ تمام زمین  کو ان کے ورثاء میں مقررہ حصوں کے تناسب سے تقسیم کر نا ضروی  ہے،  تقسیم میں تاخیر کرنا جائز نہیں ، فی الفور متروکہ زمین  کو فروخت کرکے ہر ایک وارث کو اس  کا  مقررہ حصہ دے یا ورثاء میں کوئی شخص باہمی رضامندی سے ان زمینوں  کو موجودہ قیمت پرخرید کر ہر وارث کو اس کاحصے کی رقم دےدے۔ 

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ سب سے پہلے   مرحوم  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکا لنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعد  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو13حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت ۱۳

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
۲۲۲۲۱۱۱۱۱

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 15.384فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 7.692فیصد ملے گا۔

قرآن مجید میں ہے :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِل                                (النساء۔۲۹)

وفیہ ایضاً:

وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ ۠ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ ۭاِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا۔                                                             (النساء۔۲)

 

ترجمہ:

اور جن بچوں کا باپ مرجائے ان کے مال ان ہی کو پہنچاتے رہو اور تم اچھی چیز سے بری چیز کو مت بدلو اور ان کا مالمت کھاؤاپنے مالوں (کے رہنے) تک بے شک یہ (ایسی کارروائی کرنا) بڑا گناہ ہے۔                      (بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة۔

(مشکوٰۃ المصابیح الفصل الثالث،ج۔۱،ص۲۷۲ط رحمانیہ)

ترجمہ:

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ (مظاہرِ حق )

در مختار ميں ہے :

(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول۔

(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب القسمۃ ، ج۔۶،ص۔۲۶۰،ط۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں