بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدفعلی کے مجرم کو سزا کون دے؟


سوال

ایک شخص لواطت کاعادی ہو،جس سے پہلےبھی بہت سارےواقعات رونماہوچکےہیں،بعض واقعات رمضان میں روزے کی حالت میں ایک دوبار  لواطت کرچکا ہے،اورابھی حال ہی میں وحشیانہ طور پرایک اورواقعہ سرزد ہواہے،جس کاخلاصہ یہ ہےکہ اس وحشی نےتین لڑکوں کو(ان میں سے ایک اس کاکزن،ایک اپنابھتیجا،اورایک دور کابھتیجاتھا)نشہ آور دوا کولڈرنک میں ملاکر ان کوپلائی،جس سے تینوں بےہوش ہوگئےتھے ،اوراس وحشی نے اپنامقصد پوراکیاتھا،اب ان تین لڑکوں کاکہنا ہےکہ ہم اس کو جان سے ماردیتےہیں،کیاایسےشخص کوقتل کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت کی  متعین کردہ سزائیں جاری کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، ہر آدمی اس کا مجاز نہیں؛ کیوں کہ اگر ہر کس و نا کس کو اس کی اجازت دے دی جائے تو ریاست میں انتشار اور بدامنی پیدا ہو جائے گی، حکومتِ وقت اگر حدود جاری نہ کرتی ہو تو کسی دوسرے شخص کو اس کی اجازت نہ ہو گی۔

شریعت مطہرہ  میں لواطت کے مرتکب شخص کے لئے  کوئی حد مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ حاکمِ وقت کی رائے پر مفوض کر دیا گیا کہ وہ  تعزیراًجو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلاً اس کو قید کیا جا سکتا ہے، اور اگر بار بار کرتا ہو تو اس کو قتل کیاجاسکتاہے وغیرہ،کیوں کہ ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تینوں متاثرہ لڑکوں کومذکورہ مجرم شخص کےقتل کااختیارنہیں ہے،البتہ مجبورکرتےوقت دفاع کرتےہوئے اگرمجرم کوماردیاجاتا توشرعاً کوئی گناہ نہیں ہوتا، تاهم بعد میں سزا دلوانے کےلیےعدالت سےرجوع کرنالازم ہوگا،اور ایسےمجرم شخص کےخلاف قانونی اوردیگرمناسب ذرائع اختیارکرتےہوئےتادیبی کاروائی کرنےاورسزادلوانےکا مکمل حق ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله: يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولايحد عند الإمام إلا إذا تكرر؛ فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه."

(كتاب الحدود، باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، فرع الإستمناء، ج:4، ص:27، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"بوطء (دبر) وقالا: إن فعل في الأجانب حد. وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر. قال في الدرر بنحو الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع باتباع الأحجار. وفي الحاوي والجلد أصح وفي الفتح يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب؛ ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة."

(كتاب الحدود، باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، فرع الإستمناء، ج:4، ص:27، ط: سعيد)

دررالحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"ولذا قال الكمال: لو اعتاد اللواطة سواء كان بأجنبي أو عبده أو أمته أو زوجته بنكاح صحيح أو فاسد قتله الإمام محصنًا كان أو غير محصن سياسةً اهـ".

(كتاب الحدود، باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه،ج2، ص:66، ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411101959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں