بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھابھیوں سے مصافحہ کرنا


سوال

جناب میری عمر اٹھارہ  سال ہے اور  میں ایسے گھر میں رہتا ہوں جہاں میرے بھائی اور ان کی ازواج بھی رہتی ہیں؛ چوں کہ میں ان سے چھوٹا ہوں  تو یہ بات میں ان کو  نہیں کہہ سکتا  کہ آپ  مجھ  سے  ہاتھ  نہ  ملائیں اور  مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں اس سلسلے میں جہاں تک  مجھے معلوم ہے کہ نامحرم کے  ساتھ  ہاتھ  ملانا حرام ہے   تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟اور  اگر کوئی نامحرم ہو اور عمر میں  ساٹھ  سال  تک  ہو تو کیا ان سے  ہاتھ ملانا حرام ہے؟اور اگر ہاتھ ملاتے وقت دستانے پہن لیے جائیں تو اس میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نا محرم خواتین سے ہاتھ  ملانا  تمام فقہاءِ کرام  کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے،(چاہے دستانے پہن کر ہاتھ ملایا جائے) اور اس کی دلیل نصوص میں موجود ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نا محرم خواتین کو چھونے پر  بھی شدید وعید سنائی ہے، (اور ہاتھ ملانے میں چھونا ہی نہیں، غیر محرم کا ہاتھ پکڑنا بھی پایا جاتاہے۔) جیساکہ طبرانی میں بروایت حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:

’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کا سُوا  (بڑی سوئی) چُبھوئی جائے یہ زیادہ بہتر  اس سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے۔‘‘

"عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني". 

(صحيح الجامع 5045)

ہاں اپنی محرم خواتین سے مصافحہ کرسکتا ہے۔

اسی طرح غیر محرم بوڑھی عورت کو بھی سلام کرسکتا ہے، اوربوڑھی عورت بھی  مرد کو سلام کرسکتی ہے، اسی طرح سلام کا جواب دے سکتی ہے، اور مرد بھی اس کے سلام کا جواب دے سکتاہے۔ البتہ یہ  حکم زبانی سلام کا ہے، مصافحہ سے بہر حال اجتناب کرنا چاہیے، الایہ کہ وہ اتنی بوڑھی ہوچکی ہو  کہ اس سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو، تو  گنجائش  ہوگی۔  

بھابی  بھی نامحرم ہے، اور    جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے، وہی  حکم دیور/جیٹھ اور بھابی کا بھی ہے،   نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردے  کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے  دیور کو موت سے تعبیر فرمایا۔ 

(صحیح مسلم، باب التحریم الخلوۃ بالأجنبیة والدخول، ج: ۷، ص: ۷، ط: دار الجیل بیروت، و غیرها من کتب الأحادیث)

یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے  بھی  ہونا چاہیے، خصوصًا جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو، ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ  میں سائل پر لازم ہے کہ  اپنے بھائیوں کی اَزواج سے پردے کا خوب اہتمام  کرے، نظروں  کی بھی حفاظت کرے، اور  مصافحہ کرنے سے تو  سختی سے اجتناب کرے، اس لیے کہ یہ بہت سخت گناہ بھی ہے، اور فتنوں کا سبب بھی ۔

نیز دیور    کو  چاہیے کہ جو بھابیاں جوان ہیں، ان  کو  مخاطب کر کے از خود   زبانی   سلام بھی نہ کرے،  (ہاں وہ سلام کریں تو  جواب دے سکتے ہیں )، البتہ بڑی عمر  کی بھابیوں کو  زبانی  سلام کرسکتے  ہیں۔ 

اپنے  گھر والوں کو  ان مسائل سے آگاہ فرمائیں اور حکمت و بصیرت کے  ساتھ   گھر میں مکمل شرعی پردہ کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کریں۔

"عن یحی بن أبي کثیر قال: بلغني أنه یکره أن یسلم الرجل علی النساء، والنساء علی الرجل."

(شعب الإیمان، فصل في السلام علی النساء، دار الکتب العلمیة بیروت ۶/۴۶۰، رقم: ۸۸۹۶)

"قال: و أخبرنا معمر، قال: کان قتادة یقول: أما امرأة من القواعد فلا بأس أن یسلم علیها، وأما الثانیة فلا".

 (شعب الإیمان) 

درمختار مع رد المحتار میں ہے:

"وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولايكلّم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلّمت فيشمّتها و يردّ السلام عليها، وإلا لا انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزًا بل شابَّةً لايشمّتها، ولايرد السلام بلسانه، قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ. وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 369),كتاب الحظر والإباحة]-[فصل في النظر والمس]-ط: سعید)

و فيه أيضاً (6 / 367):

( ومن محرمه ) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا ( إلى الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته ) وشهوتها أيضا ، ذكره في الهداية ....( وما حل نظره ) مما مر من ذكر أو أنثى ( حل لمسه ) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة وقال عليه الصلاة والسلام من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة وإن لم يأمن ذلك أو شك فلايحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان و المجتبى ( إلا من أجنبية ) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں