میرا بھائی اور اس کی بیوی جو کہ میری سالی بھی ہے، ہمارے ساتھ ہی جوائنٹ (مشترکہ) فیملی سسٹم میں رہتے ہیں اور سب کا خرچہ سائل ہی ادا کرتا ہے۔ بھائی اور بھابھی کا ذریعہ معاش کوئی نہیں ہے۔ والد مرحوم کی کچھ زرعی زمینیں بھی ہیں، جن سے کوئی ایک سال کا بھی راشن نہیں آتا اور اُن کی پیداوار بھی مشترک ہے۔ بھائی بھابھی کے دوسرے اخراجات بھی سائل ہی اٹھاتا ہے۔ مجھے میری والدہ نے مشورہ دیا کہ میں کچھ زکاۃ کا حصہ بھابھی کو دوں کیوں کہ اُسے پیسے ضرورت پڑتے ہیں۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سائل ماہانہ بھی ایک ہزار روپے دیتا ہے بھابھی کو (کبھی کبھار دینا رہ بھی جاتے ہیں)۔ کیا ایسی صورت میں بھابھی کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؟
اگر آپ کی بھابھی مستحقِ زکاۃ ہیں تو آپ انہیں اس شرط کے ساتھ زکاۃ دے سکتے ہیں کہ وہ دی ہوئی زکاۃ کو گھر کے مشترکہ خرچ میں شامل نہ کریں، تاکہ آپ کی دی ہوئی زکاۃ آپ اور آپ کے بچوں کے استعمال میں نہ آئے۔
زکاۃ کا مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملکیت میں درج ذیل چیزوں میں سے کچھ نہ ہو:
ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا زیور اور رقم وغیرہ ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر مال، یا ضرورت و استعمال سے زیادہ اتنا مال یا سامان جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچ جائے۔
نیز آپ کی بھابھی ہاشمی (سید/عباسی) بھی نہ ہوں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن