بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بھابھی کا سونا معاف کرنے کے بعد اس کا دوبارہ مطالبہ کا شرعی حکم


سوال

میری والدہ نے میری بھابھی (بھائی کی بیوی) کو ان کی شادی کے وقت دو تولہ سونا دیا تھا۔ بعد میں والدہ کو کچھ رقم کی ضرورت پیش آئی تو بھابھی نے وہی سونا والدہ کو دے دیا، اور والدہ نے کہا کہ جب میری مالی حالت بہتر ہو جائے گی تو میں آپ کو سونا واپس کر دوں گی۔ لیکن والدہ اپنی زندگی میں وہ سونا واپس نہ کر سکیں۔والدہ کے انتقال کے بعد تدفین سے پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ اگر والدہ کے ذمے کسی کا قرض ہو تو ہمیں بتا دیں تاکہ ہم ادا کر سکیں، تو بھابھی نے سب بہن بھائیوں کے سامنے کہا: "میں نے وہ سونا ہمیشہ کے لیے معاف کر دیا ہے۔" بعد میں بھی ایک موقع پر جب والدہ کا تذکرہ آیا تو بھابھی نے پھر یہی بات دہرائی کہ: "میں نے سونا ہمیشہ کے لیے معاف کر دیا تھا۔"

اب حال ہی میں جب ہم نے والدہ کا مکان بیچا، تو بھابھی نے مطالبہ کیا کہ چونکہ والدہ نے کہا تھا کہ وہ سونا واپس بنا کر دیں گی، اس لیے مجھے سونا واپس دیا جائے۔ حالانکہ انہوں نے پہلے سب کے سامنے سونا معاف کر دیا تھا۔

سوال یہ ہے:

1. کیا اب بھابھی کا سونے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟

2. اگر رقم واپس کرنا ضروری ہے ، تو سونے کی اُس وقت کی قیمت (2004) کے مطابق(20000) دیں یا آج کی قیمت (تقریباً سات لاکھ روپے) کے مطابق؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدہ مرحومہ نے بھابھی سے  جو سونا  لیا تھا ،وہ  ایک قرض تھا، جو ان کے ذمے ایک مالی ذمہ داری تھی۔ انتقال کے بعد اگر  واقعۃً بھابھی نے سب ورثاء کے سامنے اس قرض کو معاف کر دیا ہے ، تو شرعاً یہ اسقاطِ حق (اپنے حق کو چھوڑ دینا) ہے، جو درست اور نافذ ہے۔

لہٰذا جب حق معاف کر دیا گیا تو والدہ مرحومہ کا ذمہ بری ہو گیا، اور اب اس قرض یا سونے کا دوبارہ مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"إذا أبرأ أحد آخر من حق يسقط حقه من ذلك وليس له دعوى ذلك الحق."

(الفصل الثانی فی المسائل المتعلقۃ باحکام ابراء الدین،ص:305،ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں