بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر اجازت کے مشترکہ پانی استعمال کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم اہلیان سوئیر بالا کافی آبادی پر مشتمل اس بستی میں  رہائش پذیر ہیں اور ہمارے یہاں مشترکہ مفادات مشترکہ طور پر  زیر استعمال ہیں ان میں سے ایک پانی کامسئلہ ہے چونکہ علاقے میں پانی کی کمی ہے اوریہاں لوگ زراعت پر اپنا گذر بسر کرتے ہیں اور پینے کا پانی روزمرہ استعمال کے لیےسرکاری ہےاور سرکاری طور پرپائپ لائن بچھاتے وقت پانی کی کمی کی وجہ سے علاقہ کے  اکابرین دانشور حضرات نے اتفاقا معاہدہ کرکےسرکاری پائپ لائن بچھانے کی اجازت دی جس کی رو سے زمینات وفصلات کے پانی کو روزمرہ استعمال کے پانی کے مقابلے میں ترجیح دی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پینے کا پانی برتن پر لا کرگزارہ کیا جاسکتا ہے،تاہم زمینات وفصلات کے لیے برتن پر پانی لاکر آبپاشی کرنا ناممکن ہے،لہذا پانی کم ہونے کی صورت میں سرکاری پائپ لائن بند کرکے زمینات وفصلات کو آبپاشی کے لیے پانی بحال کیا جائے گا۔

چونکہ تمام گھروں کو سرکاری پائپ لائن سے  وقت مقررہ پر پانی مہیا ہے اور سرکاری لائن میں تین بندے سرکاری ملازم ہیں جو کہ لوگوں کو بروقت پانی کی ترسیل میں سرگرم  عمل ہیں چونکہ نہر آبپاشی کا پانی اوپر سے آتا ہے جوکہ زمینات کا پانی ہے لیکن بعض لوگ اس نہر کو بیجا طور پر  پائپ لگا کرآبپاشی کے پانی کو اپنے گھروں تک لے گئے ہیں اور آبپاشی کا پانی بھی ان لوگوں کے گھروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے زمینات تک پہنچتاہے اور یوں یہ لوگ تین قسم کا پانی استعمال کرتے ہیں۔

1۔سرکاری پائپ لائن۔2۔خود ساختہ پائپ لگا کر۔3۔نہر آبپاشی کا پانی۔

ان لوگوں کے اس بے جاپائپ لائن سے زمینداروں کو سخت تکلیف ہوئی ہے اورآپس میں شروفساد کا باعث بناہے ،علاقہ کے معززین اور علمائے کرام نے اتفاقا یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی کو بھی نہر سے فاضل پائپ لگا نے کی اجازت نہیں  تاکہ شروفساد نہ ہو،فیصلہ نامہ استفتاء کے ساتھ لف کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اس مشترکہ پانی کو اپنے روز مرہ کے استعمال کے لیے ذاتی طور پر استعمال کر سکتے ہیں جب کہ اس سے عوام الناس خصوصا زمینداروں کو سخت اذیت کا سامنا ہے؟ازروئےقرآن وسنت مسئلے کی وضاحت فرما کر مشکور وممنون فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں یہ نہر اور اس کا پانی تمام گاؤں والوں کے درمیان مشترک ہے اس میں چند افراد کا ایسا تصرف کرناجس سے باقی لوگوں کی حق تلفی ہویا ان کا نقصان ہو شرعاً جائز نہیں،مشترکہ پانی کو ذاتی استعمال میں لاکر لوگوں کو اذیت دینا باعث گناہ ہےاس سے اجتناب ضروری ہے،علاقے کے معززین اور علمائے کرام نے جو فیصلہ کیا ہے کہ کسی کو بھی نہر سے فاضل پائپ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی،انتظامی لحاظ سے  یہ فیصلہ درست ہے،علاقے کے لوگوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے،لیکن علاقے کے معززین اور علمائے کرام کو اس پہلو کا خیال  رکھنا بھی ضروری ہے کہ پانی کی تقسیم منصفانہ ہو ایسا نہ ہو کہ زمیندار طبقے کی  تو زمینیں بھی سیراب ہوں اور   عام لوگ  اتنے متاثر ہوں کہ انہیں اپنی بنیادی  ضروریات کے لیے بھی پانی میسر نہ ہو۔

حديث شريف ميں  ہے:

 "‌المسلمون ‌على ‌شروطهم إلا شرطاً حرّم حلالاً".

( أخرجه الترمذي: 3/625-626 وقال: حديث حسن صحيح) 

فتاوی عالمگیری ہے:

والأنهار ثلاثة منها ما يكون كريه على السلطان ومنها ما يكون كريه على أصحاب النهر فإذا امتنعوا يجبرون على ذلك ومنها ما يكون كريه على أصحاب النهر فإذا امتنعوا لا يجبرون۔۔۔وليس لأحد أن يكري من هذا النهر نهرا لأرضه أضر ذلك بأهل النهر أو لم يضر ولا يستحق بهذا الماء الشفعة

(کتاب احیاءالموات ج 389/5ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں