بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو مشروط طلاق میں ایک مزید طلاق منجز دے کر رجوع کرنے کے بعد شرط کے پائے جانے اور طلاق کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو کہا کہ " مجھے قسم ہے! اگر آج کے بعد تو ماں باپ کے گھر گئی تو تجھ پر 300 بار طلاق ہوگی"، اس کے تقریباً دو ماہ بعد عورت ماں باپ کے گھر چلی گئی،نیزعورت کے ماں باپ کے گھر جانے سے قبل شوہر نے (طلاق  ِمعلق کے مذکورہ جملہ کے علاوہ )ایک طلاق دے  کر علیحدگی اختیارکرلی تھی،اور پھر عدت کی مدت کے دوران ہی رجوع بھی کرلیا تھا،اب مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں میاں بیوی کا نکاح شرعی طور پر برقرار ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو والدین کے گھر جانے سے منع کرتے ہوئے جو الفاظ بولےتھے کہ" مجھے قسم ہے! اگر آج کے بعد تو ماں باپ کے گھر گئی تو تجھ پر 300 بار طلاق ہوگی"،تو اس جملہ سےتمام طلاقیں والدین کے گھر جانے پر معلق ہوچکی تھیں،باقی عورت کے ماں باپ کے گھر جانے سے قبل شوہر نے جو ایک طلاق مزید دے کر عدت کے دوران رجوع کرلیا تھا،اس سے میاں بیوی کا نکاح تو بدستور قائم تھا،البتہ ایک طلاق واقع ہونے کی وجہ سے فقط دو طلاقوں کا اختیار شوہر کے پاس باقی رہ گیا تھا،اور جب عورت  دو ماہ بعد اپنے والدین کے گھر چلی گئی تو اس سے بقیہ دو طلاقیں بھی واقع ہوچکی ہیں، نکاح ختم ہوچکا،اور اب عورت حرمت مغلظہ کے ساتھ مرد پر حرام ہوچکی ہے،، اب نہ دورانِ عدت رجوع جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت ہے، مطلقہ اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو،اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،البتہ مطلقہ اپنی عدت گزارنے کے بعد اگر کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرلے اور اس سے جسمانی تعلق (صحبت ) قائم ہو جائے ،اس کے بعد دوسرا شوہر اسے طلاق دیدے یا بیوی طلاق لے لے یا دوسرے شوہر  کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار  کر اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکے گی۔

سورۃ البقرۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

" فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُۥۗ." (البقرة، آية:230)

ترجمہ:"پھر اگر کوئی(تیسری)طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک وہ اس کے سوا ایک خاوند کے ساتھ(عدت کےبعد)نکاح کرلے۔"(ترجمہ بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو إن كلمت فلانا أو إن قدم فلان ونحو ذلك وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم ‌إذا ‌وجد ‌الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:126، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه ، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1، ص:420، ط:دارالفكر)

وفيه ايضا:

"قال لامرأته هزار طلاق ترا وقع الثلاث."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج:1، ص:380، ط:دارالفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾[البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( کتاب الطلاق، فصل فی حكم الطلاق البائن، 3/ 187، ط سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة و مايتصل به، 1/ 473، ط: دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں