بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی وفات کے بعد سسرال والوں سے رشتے کا حکم


سوال

اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر کے لئے نامحرم ہو جاتی ہے،  کیا اب شوہر کا رشتہ اپنی سالیوں اور سالوں سے ختم ہو جاتا ہے ؟ اب اگر شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس کے پرانے سسرالی رشتہ دار سے بھی رشتہ ختم ہو جاتاہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو اس شخص کا سسرال کے ساتھ رشتہ اس اعتبار سے ختم ہوگیا ہے ، کہ بیوی کی وجہ سے جن رشتہ داروں سے نکاح کرنا   نا جائز تھا، اب ان سے نکاح کرنا جائز ہے،البتہ ساس کے ساتھ  حرمت  کارشتہ  باقی رہتا  ہے، اور اس کے ساتھ نکاح کرنا  ہمیشہ کے لیے ناجائز ہوتا ہے، تاہم سسرال کے ساتھ تعلق اور رشتہ برقرار رہتا ہے، اور ان   کے ہاں ساس سےملنےکے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں، اور ساس کے علاوہ  جن عورتوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے، باقی سالہ وغیرہ بدستور سالہ ہی رہتا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌قوله: ‌مصاهرة) ‌كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:28، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌ماتت ‌امرأته له التزوج بأختها بعد يوم من موتها كما في الخلاصة عن الأصل، وكذا في المبسوط لصدر الإسلام والمحيط للسرخسي والبحر والتتارخانية وغيرها من الكتب المعتمدة، وأما ما عزي إلى النتف من وجوب العدة فلا يعتمد عليه وتمامه في كتابنا تنقيح الفتاوى الحامدية."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:38، ط: سعيد)

النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"الحرمة المؤبدة بالسبب، وأما السبب فهو على عشرة أوجه وهي  الرضاع والصهرية …" وأما الصهر فهم أربعة أصناف: أحدهم: أبو الزوج والجدود من قبل أبويه وإن علوا، يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم، دخل بها أو لم يدخل بها؛ لقوله تعالى: {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم}. والثاني: أم المرأة وجداتها من قبل أبويها وإن علون، يحرمن على الرجل ويحرم هو عليهن دخل بها أو لم يدخل؛ لقوله تعالى: {وأمهات نسائكم}".

 (النتف في الفتاوى للسغدي ، 253،254/1، دار الفرقان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں