بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی شرمگاہ اور پچھلے مقام کی ہر جگہ چومنے/ بیوی کی ران، ہاتھ اور چھاتی سے شہوت پوری کرنے/ ایک وقت میں 3 یا 4 مرتبہ ہم بستری کرنے کا حکم


سوال

(1)کیا بیوی کی شرمگاہ اور پچھلے مقام کی ہر جگہ چوم سکتے ہیں؟

(2)بیوی کی کس کس جگہ سے خواہش پوری کرسکتے ہیں؟ مثلاً بیوی کے ہاتھ سے یا چھاتی اور ران سے خواہش پوری کرسکتے ہیں؟

(3)ایک وقت میں 3 یا 4 مرتبہ ہم بستری کرسکتے ہیں؟

جواب

(1)صورت مسئولہ میں مرد وعورت کا ایک دوسرے کی شرمگاہ چاٹنا ،یہ عمل میاں بیوی کے درمیان بھی غیرشریفانہ اورغیرمہذب عمل ہے،میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کودیکھنابھی غیرمناسب ہے اورنسیان کی بیماری کاسبب بنتاہے ، لہذااس سے حترازکرنا ضروری ہے۔

حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی، اس حدیث کے ذیل صاحب مظاہرِحق علامہ قطب الدین دہلویؒ لکھتے ہیں:ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہ الفاظ ہیں کہ :"نہ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میراسترکبھی دیکھااورنہ کبھی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاستردیکھا"۔

ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کاستردیکھ سکتے ہیں لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردے کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو(یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔

فقہاء نے اس کوناجائز (مکروہِ تحریمی) ہونے کا لکھا ہے۔

(2)بیوی کے ہاتھ ، ران اور چھاتی سے شہوت پوری کرناغیر فطری اور  نامناسب طریقہ ہے ،بغیر عذر کے ایسا کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے احتراز کیا جائے۔

(3) شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کا پورا پورا حق دیا ہےاورشریعت کی طرف سے اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے، آدمی حسب ضرورت وخواہش کسی بھی دن یا رات میں جب چاہے بیوی سے صحبت کرسکتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت نے شوہر پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق  اور اس کی صحت اور رغبت کا لحاظ بھی رکھے اور اس کی استطاعت اور طاقت سے زیادہ اس کو ہمبستری کرنے پر مجبور نہ کرے، صورتِ مسئولہ میں اگر کسی کی بیوی ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ مثلاً 3 یا 4 مرتبہ ہمبستری کرنے کی قدرت رکھتی ہو تو ایسا کرنا جائز و درست ہے ۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عائشة، قالت: «‌ما ‌نظرت، أو ما رأيت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط»."

(کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، ج:1، ص:619، ط:داراحیاء الکتب العربیة)

وفیہ ایضاً:

"عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أتى أحدكم أهله ‌فليستتر، ولا يتجرد تجرد العيرين»."

(کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، ج:1، ص:618، ط:داراحیاء الکتب العربیة)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة."

(کتاب الکراهیة، الباب الثلاثون فی المتفرقات، ج:5، ص:372، ط:دارالفکر)

محیط البرہانی میں ہے:

"إذا ‌أدخل ‌الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلا يليق به إدخال الذكر فيه، وقد قيل بخلافه."

(کتاب الاستحسان و الکراهیة ، الفصل الثانی و الثلاثون فی المتفرقات ج:5، ص:408، ط:دارالکتب العلمیة بیروت لبنان)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ  میں ہے:

"‌‌‌لمس ‌فرج ‌الزوجة: اتفق الفقهاء على أنه يجوز للزوج مس فرج زوجته. قال ابن عابدين: سأل أبو يوسف أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا؟ قال: لا، وأرجو أن يعظم الأجر  .

وقال الحطاب: قد روي عن مالك أنه قال: لا بأس أن ينظر إلى الفرج في حال الجماع، وزاد في رواية: ويلحسه بلسانه، وهو مبالغة في الإباحة، وليس كذلك على ظاهره .

وقال الفناني من الشافعية: يجوز للزوج كل تمتع منها بما سوى حلقة دبرها، ولو بمص بظرها وصرح الحنابلة بجواز تقبيل الفرج قبل الجماع، وكراهته بعده."

(الاحکام المتعلقة بالفرج ج:32، ص:91، ط:وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیة الکویت)

فتاوی رحیمیۃ میں ہے:

 "بے شک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے، ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرم گاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے۔ غور کیجیے! جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل  کیسے گوارا کرسکتاہے؟"

(کتاب الحظر و الاباحۃ  ، ج:10،  ص:178،  ط:دارالاشاعت کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في حكم الاستمناء بالكف ........... ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم".

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ج:2، ص:399، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولو مكن امرأته أو أمته ‌من ‌العبث ‌بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه.

(قوله كره) الظاهر أنها كراهة تنزيه؛ لأن ذلك بمنزلة ما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين تأمل وقدمنا عن المعراج في باب مفسدات الصوم: يجوز أن يستمني بيد زوجته أو خادمته وانظر ما كتبناه هناك (قوله ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه".

(کتاب الحدود، ‌‌باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ج:4، ص:27، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا"

 (قوله نهر بحثا) حيث قال: ومقتضى النظر أنه لا يجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل يقضي عليهما بأربع في الليل وأربع في النهار، وقيل بأربع فيهما. وعن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون باثني عشر مرة.

وعندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ. قال الحموي عقبه: وأقول ينبغي أن يسألها القاضي عما تطيق ويكون القول لهما بيمينها لأنه لا يعلم إلا منها وهذا طبق القواعد، وأما كونه منوطا بظن القاضي فهو إن لم يكن صحيحا فبعيد. هذا، وقد صرح ابن مجد أن في تأسيس النظائر وغيره أنه إذا لم يوجد نص في حكم من كتب أصحابنا يرجع إلى مذهب مالك وأقول: لم أر حكم ما لو تضررت من عظم آلته بغلظ أو طول وهي واقعة الفتوى اهـ. أقول: ما نقله عن ابن مجد غير مشهور، ولم أر من ذكره غيره، نعم ذكر في الدرر المنتقى في باب الرجعة عن القهستاني عن ديباجة المصفى أن بعض أصحابنا مال إلى أقواله ضرورة. هذا، وقد صرحوا عندنا بأن الزوجة إذا كانت صغيرة لا تطيق الوطء لا تسلم إلى الزوج حتى تطيقه. والصحيح أنه غير مقدر بالسن بل يفوض إلى القاضي بالنظر إليها من سمن أو هزال. وقدمنا عن التتارخانية أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنة. اهـ. وربما يفهم من سمنه عظم آلته. وحرر الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية أنه لو جامع زوجته فماتت أو صارت مفضاة، فإن كانت صغيرة أو مكرهة أو لا تطيق تلزمه الدية اتفاقا. فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها فيقتصر على ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو إخبار النساء، وإن لم يعلم بذلك فبقولها وكذا في غلظ الآلة، ويؤمر في طولها بإدخال قدر ما تطيقه منها أو بقدر آلة الرجل معتدل الخلقة، والله تعالى أعلم."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:203، 204، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں