بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نام زمین خریدنے کے بعد اس پر مکان بنانے کی صورت میں ہبہ کا حکم


سوال

ہمارے والد نے ہماری والدہ کے نام زمین خریدی، اور بعد میں اس پر مکان بنایا،  والد کا انتقال 2012 میں ہوا،  میری والدہ گھر اپنے بیٹوں (مجھے اور میرے بھائی) کو دینا چاہتی ہیں، انہوں نے یہ بات اپنی بیٹی (ہماری بہن) کو بتائی ہے،  میری بہن نے تحریری بیان دیا کہ اس نے گھر میں اپنا حصہ چھوڑ دیا، کچھ سال پہلے میری والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو گھر تحفے میں دے دیا۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنی بہن کو گھر میں اس کے حصے کے پیسے دینا ہوں گے؟

وضاحتیں:

(1) آپ کے والد نے آپ کی والدہ کے نام زمین خریدنے کے بعد اس کے قبضہ وتصرف میں بھی دیا تھا، یا صرف نام کیا تھا؟

جواب: جہاں تک میں جانتا ہوں،  وہ گھر سے متعلق معاملات کو خود ہی چلاتے تھے۔

(2) اس زمین پر مکان آپ کی والدہ کی اجازت سے بنایا تھا یا بغیر اجازت؟

جواب :میں نہیں جانتا ۔

(3)والدہ نے آپ لوگوں کو مکان گفٹ کرنے کے بعد ہر ایک کو تقسیم کرکے قبضہ میں دیا یا نہیں؟

جواب: میں اوپر رہتا ہوں اور میرا بھائی نیچے رہتا ہے، ہماری والدہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں ،وہ حیات ہیں۔

(4)   گفٹ کرتے وقت والدہ اس میں رہائش پذیر تھی یا نہیں؟

جواب: ہماری والدہ حیات ہیں، وہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں، وہ تحفہ دیتے وقت گھر سے نہیں نکلی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نے مذکورہ زمین  اپنی بیوی کے نام خریدی تھی  اور اس پرمکان بھی خود  بنایا، لیکن بیوی کو زمین کا مکمل قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا بلکہ تمام معاملات سائل کا والد ہی چلاتے تھے تو مذکورہ مکان  میں شرعاً ان کی ملکیت نہیں آئی بلکہ یہ بدستور سائل کے والد ہی کی ملکیت تھی، اب ان کے انتقال کے بعد مذکورہ مکان سائل کے والد کے ترکہ میں شمار ہوکر تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔

 اگر سائل ہر وارث کے حصوں کی مقدار  معلوم کرنا چاہتا ہو تو تمام ورثاء کی تفصیل لکھ کر بھیج دے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4، ص:378، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة،ج:5،ص:690، ط :سعید)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار."

(فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، ج:14، ص:431، ط:زکریا،دیوبند،دهلی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں