بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا لاعلمی کی وجہ سے شوہر کو ہم بستری نہ کرنے اور اس سے الگ سونے کا حکم


سوال

ایک عورت جو کہ اب بیوہ ہوچکی ہے، اسے معلوم نہیں تھا کہ جوانی کا وقت گزرنےکے بعد بھی ہم بستری کرسکتے ہیں، اور وہ جوانی کے بعدسے الگ کمرے میں سوتی رہی ہے، لہذا لاعلمی میں اس سے جو غلطی ہوئی ہےتوکیا اللّٰہ تعالیٰ معاف کردیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بیوہ عورت کو اس کے شوہر نےہم بستری، یا اپنے پاس سونے  کے لیے بلایا ہواورلاعلمی کی وجہ سے بلا عذرِ شرعی اس نے اپنے شوہر کوہمبستری پر قدرت نہ دی ہو،اور شوہر سے الگ سوتی رہی ہے،تو اس صورت میں یہ عورت گناہ گار ہے، لہذا اب غلطی کے احساس کے بعداللہ کے حضور اپنے اس فعل پر معافی مانگے اورمرحوم شوہر کے حق میں کثرت کے ساتھ دعا کرے تو امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے۔

اور اگر شوہر نے جوانی کا وقت گزرنے کے بعد ہمبستری کرنے کا تقاضانہ کیا ہو،یا پھرشوہر کی جانب سے تقاضہ تو کیا گیا ہولیکن عورت نے کسی بیماری اور عذرِ شرعی کی بنیاد پر  ہمبستری کرنے کی اجازت نہ دی ہوتو اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہو گی۔ 

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح."

(باب عشرة النساء،ج:2، ص:280، ط:قدیمی)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:  جب کسی مرد نےاپنی بیوی کو جماع کی طرف بلایا اور اس نے انکار کیا اور شوہر نے رات غصے میں گزاری تو فرشتے صبح تک اس بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں۔" 

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية قيل: والحيض ليس بعذر في الامتناع لأن له حقا في الاستمتاع بما فوق الإزار عند الجمهور."

(باب عشرۃ النساء،ج:2، ص:2121، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحقه عليها أن تطيعه ‌في ‌كل ‌مباح يأمرها به.

(قوله ‌في ‌كل ‌مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به."

(كتاب النكاح، باب القسم في الزوجات، ج:3، ص:208، ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"من ‌حق ‌الزوج ‌على ‌زوجته أن تمكنه من الإستمتاع بها، فإذا كانت مطيقة للجماع وتسلمت معجل صداقها وطلب الزوج تسلمها وجب تسليمها إليه وتمكينه من الإستمتاع بها."

(كتاب النكاح، باب آثار النكاح الصحيح،فصل الحقوق المشتركة بين الزوجين،ج:41، ص:310، ط:طبع الوزارة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إن العبد ليموت والداه أو أحدهما وإنه لهما) أي: لأجلهما الصادق لهما، أو لأحدهما (لعاق) ، اللام فيه للتأكيد ولهما متعلق بعاق قدم عليه للاختصاص (فلا يزال) أي: العاق في حياتهما التائب بعد موتها (يدعو لهما) أي: بالرحمة ونحوها (ويستغفر لهما) أي: لذنوبهما (حتى يكتبه الله) أي: في ديوان عمله بأمر الحفظة (بارا) ، فإن الحسنات يذهبن السيئات، والتائب من الذنب كمن لا ذنب له، وإنما قيدنا بالتوبة، فإن العقوق من حقوق الله أيضا، فلا بد منها حتى يصير بارا."

(كتاب الآداب ، باب البر والصلة،ج:7، ص:3097،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه."

(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"‌الجهل ‌بالأحكام في دار الإسلام ليس بمعتبر."

(كتاب الصوم،اقسام الصوم، ج:2، ص:282، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں