میری شادی 2019 کو ہوئی ، شادی کے بعد چھ ماہ تک معاملات صحیح چلتے رہے، اس کے بعد میری بیوی حاملہ ہوئی، تو میری ساس اس کو اپنے گھر لے گئیں، اس دوران بچہ بھی ہوا، اور میں آتا جاتا رہا، اور بیوی اور بچے کا خرچہ اٹھاتا رہا، اور اس دوران مباشرت بھی ہوتی رہی، میں نے گھر واپسی کا مطالبہ کیا، تو ساس نے کہا کہ آپ ہمارے پاس رہو، حالاں کہ میرے گھر میں میرا پورشن، کچن، بیت الخلاء سب علیحدہ ہے، میں نے اولاً انکار کیا، اس کے بعد سسرال میں رہنے لگا، اور میری ساس ہمارے کمرے کا دروازہ رات کے وقت بند نہیں ہونے دیتی تھیں، یہ سلسلہ چلتا رہا، میری بیوی نے مجھ پر چار مرتبہ ہاتھ بھی اٹھایا، میرے سسرال والے چاہتے ہیں کہ میں والدین سے علیحدہ ہوکر ان کے بنائے ہوئے مکان میں رہوں، یہ بھی میں نے کیا، پھر بھی ہمارے معاملات درست نہیں ہوئے، بیوی کے بے جا مطالبات بھی پورے کرتا رہا ہوں، 2019 سے لے کر اب 2024 تک وہ اپنی والدہ کے گھر پر ہی رہائش پذیرہے، جبکہ 2021 میں میرے سسر نے مجھے وہاں آنے سے منع کردیا ، ایک سال بعد میرا پھر سے آنا جانا شروع ہوا تھا، اب سے چھ ماہ پہلے میرے سسر نے دوبارہ گھر آنے سے منع کردیا، میری بیوی میرے حقوق کا خیال نہیں رکھتی اور بے حد تنگ کررکھا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان حالات میں ازروئے شریعت میرے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے؟اب میں ان حالات کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، تاکہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچا سکوں؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق لازم کیے ہیں، اور دونوں پر لازم ہے کہ بقدر استطاعت ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں یعنی جس طرح شوہر پر بیوی کا نان نفقہ اور دیگر حقوق لازم کیے ہیں، اسی طرح بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری، ازدواجی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے، چناں چہ میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“
اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ دونوں ایک ساتھ رہیں اور جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃً صحیح ہے کہ سسرال والوں کا اپنی بیٹی یعنی سائل کی بیوی کو شوہر کی مرضی کے بر خلاف اپنے گھر رکھا ہوا ہے، اور شوہر کو ساتھ رہنے نہیں دیا جاتا، تو ان کا طرز عمل از روئے شرع غلط ہے، اور سائل کی بیوی پر لازم ہےکہ فورا شوہر کے پاس واپس آجائے یا شوہر کو اپنے پاس آنے دے، ورنہ وہ گنا ہ گار ہوگی؛ کیوں کہ شوہر کے بلانے کے باوجود نہ آنا سخت گناہ ہے ، احادیثِ مبارکہ میں ایسی عورت کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث شریف میں ہے کہ :
”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے، اوربیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“
پس بیوی کے انکار کرنے یا ساتھ نہ رہنے کی وجہ سے شوہر کو گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، اور اس سے بچنے کے لیے شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہو، تو اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ وہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ مالی و جسمانی حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو، کیوں کہ بیویوں کے درمیان عدل و مساوات نہ کرنے کی صورت میں شوہر کے لیے سخت وعید وارد ہوئی ہے۔
نیز بیوی کا شوہر پر ہاتھ اٹھانا کسی صورت جائز نہیں ہے،بیوی کو چاہیے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور اپنے شوہر سے بھی معافی مانگے ،باقی شوہر کو بھی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے عورت کے جذبات اس حد تک مجروح ہوجائیں کہ وہ ہاتھ اٹھانے پر آجائے ۔نیز اس سلسلے میں میاں بیوی دونوں کے خاندان کے معززافراد ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ دونوں دوبارہ سےاپنا گھر بسا سکیں۔
صحیح بخاری میں ہے:
5193 - "حدثنا محمد بن بشار: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي حازم، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت أن تجيء، لعنتها الملائكة حتى تصبح".
(كتاب النكاح، باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، ج:7، ص:30، ط: دار طوق النجاة)
سنن ترمذی میں ہے:
"1159 - حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا النضر بن شميل قال: أخبرنا محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها".
(أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، ج:3، ص:457، ط: مصطفى البابي الحلبي)
وفیہ ایضاً:
"1141 - حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط".
(أبواب النكاح، باب ما جاء في التسوية بين الضرائر، ج:3، ص:439، ط: مصطفى البابي الحلبي)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع".
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101724
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن