میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنی بیوی سے کسی بات پر غصہ ہوا۔ اس نے مجھے کہا کہ " آپ خدا کیوں بن جاتے ہیں؟" یا شاید یہ کہا کہ " آپ خدا کیوں بن گئے ہیں؟"۔ جس کے جواب میں میں نے کہا کہ یہ جملہ آپ کا ٹھیک نہیں ہے، تو اس نے کہا کہ یہ ویسے ہی کہا ہے کوئی غلط مطلب نہیں تھا۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ کفریہ جملہ ہے اور نکاح کا کیا حکم ہے؟
چند ہفتوں بعد میری بیوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کب واپس آئیں گے دعوت سے؟ میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ اللہ کو معلوم ہے کہ میں کب دعوت سے واپس آؤں گا۔ بیوی نے جواب دیا کہ "اللہ کو کیوں پتاہے، اللہ نے وہاں جانا ہے یا آپ نے جانا ہے"- میں نے اسے فورا کہا کہ یہ جملہ آپ نے ٹھیک نہیں کہا۔ جس کے جواب میں اس نے کہا کہ میرا ایسا کوئی غلط مطلب نہیں تھا اور نہ ہی کوئی نیت تھی۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ بھی کفریہ جملہ ہے اور نکاح کا کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ دونوں جملوں سے ایمان و نکاح پر کوئی اثر تو نہیں پڑا البتہ ایسے الفاظ کا بار بار استعمال ، تعبیرات کی غلطی کی وجہ سے کفر کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے آئندہ کے لیے احتیاط اور گزشتہ پر استغفار کریں۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
سوال: زید نے مریم سے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے کہا کہ آخر ایمانداری تو کوئی چیز ہے، مریم نے بیساختہ غصہ کی حالت میں کہ "ایمانداری کوئی چیز نہیں" اس بات سے ایمان میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے کہ نہیں؟ اور نکاح دوہرانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً:
ایمانداری کا مفہوم عامۃً سچ بولنا اور سیاسی غرض کو مدِنظر نہ رکھنا ہوتا ہے، خدا پر ایمان رکھنا مراد نہیں ہوتا، مریم نے جب کہا کہ ایمانداری کوئی چیز نہیں تو اسی مفہوم کی نفی کرنا مقصود ہے، نہ کہ خدا پر ایمان کی نفی، لہذا اس پر کفر کا فتویٰ نہیں ہوگا، البتہ الفاظ بولنے سے منع کیا جائے گا جن سے کفر کا شبہ بھی ہوتا ہو لہذا توبہ و استغفار کرے۔ فقط واللہ اعلم۔"
(کتاب الایمان والعقائد، باب الکفریات، جلددوم، صفحہ402، ط:ادارۃ الفاروق)
فتاوی شامی میں ہے:
(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى."
(کتاب الجهاد،باب المرتد،،ج:4،ص:230،ص:،،ط: سعید)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144604100991
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن