بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کو ہم بستری سے روکنے کا حکم


سوال

اگرعورت اپنے شوہر سے جنسی تعلق قائم نہ کرنا چاہتی ہو اور بے آرامی و عدم اطمینان   محسوس کرتی ہوتو اس سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

جواب

ہم بستری فطری ضرورت اورزوجین کاحق ہے،تاہم شوہر کا حق اس میں غالب ہے اور اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ   شوہر کی جنسی ضرورت اور خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے،بغیر شرعی عذر کےبیوی کے لیے  شوہر کو  خواہش پوری کرنے سے روکنا ناجائز اور گناہ ہے،احادیث میں ایسی عورت کے  لیے  سخت وعیدیں آئی ہیں جو شوہر کو  بلا عذرِ طبعی وشرعی  تسکین ِ شہوت سے منع کرے،اس لیےصورت ِ مسئولہ میں  اگر بیوی کی طبیعت ٹھیک ہو،تواس کا بے آرامی اور عدم اطمینان کی وجہ سے شوہر  سے جنسی تعلق قائم نہ کرنا واقعی عذرنہیں ہے۔ہاں اگر کوئی طبعی یا شرعی عذر ہو ،مثلاً ماہواری کے ایام ، یا کم عمری کی وجہ سے ہم بستری نہ کرنا چاہےیا کوئی بیماری  ہو یا  شوہر حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا چاہے، جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو یا شوہر کی جانب سے تسکینِ شہوت کے لیےغیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جاۓ یا اس کے علاوہ اور کوئی عذر ہو،تو ایسی صورت میں اگر بیوی شوہر کو منع کردے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی کی خوشی اور راحت کو مدِنظر رکھ کر اس کی اجازت دیتا ہے اور خود بھی گناہ سے بچتا ہے تو  بھی  درست ہے۔

بہر حال نکاح کے مقدس رشتے  میں  زوجین کو ایک دوسرے کی طبیعت اور جائز حقوق کامکمل  خیال رکھنا چاہیے،کسی بھی معاملے میں جبر اور زبردستی کے بجائے حکمت اور بصیرت سےایک دوسرے سے وابستہ ضرورت کا تقاضا کرنا چاہیے، کبھی اگر عورت کو کوئی واقعی  عذر ہو تو وہ شوہر کو آگاہ کردے اور شوہر بھی  حتی الامکان اس کی رعایت رکھے اور اگر عذر نہ ہو تو بیوی شوہر کی خواہش کا احترام کرے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه» ) ... (فأبت) : أي: امتنعت من غير عذر شرعي (فبات) : أي: زوجها (غضبان): أي: عليها كما في رواية (لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية ... (حتى تصبح) : أي: المرأة أو الملائكة...  (متفق عليه) : وكذا أحمد وأبو داود (وفي رواية لهما) : أي: للبخاري ومسلم... (قال والذي نفسي بيده) : أي: في قبضته وتصرفه وإرادته ( «ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء» ) : أي: أمره وحكمه أو ملكه وملكوته أو الذي هو معبود فيها وهو الله - تعالى ...  (ساخطا عليها حتى يرضى) : أي: الزوج (عنها) : فيه أن سخط الزوج يوجب سخط الرب."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء وما لكل واحدة من الحقوق، ج:5، ص:2121، ط:دارالفكر)

فتح الباری میں ہے:

"قوله إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه قال بن أبي جمرة الظاهر أن الفراش كناية عن الجماع ... والكناية عن الأشياء التي يستحى منها كثيرة في القرآن والسنة ... فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها ولابن خزيمة وبن حبان من حديث جابر رفعه ثلاثة لا تقبل لهم صلاة ولا يصعد لهم إلى السماء حسنة العبد الآبق حتى يرجع والسكران حتى يصحو والمرأة الساخط عليها زوجها حتى يرضى فهذه الإطلاقات تتناول الليل والنهار قوله فأبت أن تجيء زاد أبو عوانة عن الأعمش كما تقدم في بدء الخلق فبات غضبان عليها وبهذه الزيادة يتجه وقوع اللعن لأنها حينئذ يتحقق ثبوت معصيتها بخلاف ما إذا لم يغضب من ذلك فإنه يكون إما لأنه عذرها وإما لأنه ترك حقه من ذلك."

(قوله باب إذا باتت المرأة ‌مهاجرة ‌فراش ‌زوجهاأي بغير سبب لم يجز لها ذلك، ج:9، ص:294، ط:دارالمعرفة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وعلى الزوجة طاعة زوجها إذا دعاها إلى الفراش، ولو كانت على التنور أو على ظهر قتب، كما رواه أحمد وغيره، ما لم يشغلها عن الفرائض، أو يضرها؛ لأن الضرر ونحوه ليس من المعاشرة بالمعروف. ووجوب طاعتها له لقوله تعالى: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف}، وقوله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها»  وقوله «أيما امرأة ماتت، وزوجها راض عنها، دخلت الجنة» وقوله: «إذا دعا الرجل امرأته ‌إلى ‌فراشه، ‌فأبت أن تجيء، فبات غضبان عليها، لعنتها الملائكة، حتى تصبح»."

(‌‌القسم السادس: الأحوال الشخصية، ‌‌الباب الأول: الزواج وآثاره، ‌‌الفصل السابع: حقوق الزواج وواجباته، ‌‌المبحث الثاني ـ حقوق الزوج، ج:9، ص:6851، ط:دارالمعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں