بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو مستقل رہائش مہیا کرنا شوہر کی ذمے داری ہے


سوال

میری شادی ایک جوائنٹ فیملی میں  اٹھائیس ماہ قبل ہوئی ہے،جہاں میں ،میرے شوہر اور ہمارے ایک  ڈیڑھ سالہ بچے  سمیت کل چودہ افراد رہائش پذیر ہیں ،شادی کے ایک ہفتے بعد ہی  شوہر اور ان کے بھائیوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے  شروع ہوگیے،جس میں ایک دوسرے کو گندی گالیاں دی جاتیں،شوہر کے بھائی مجھے بھی گندی گالیاں دیتے اور ان کی بیویوں کا سلوک بھی  میرے ساتھ غیر اخلاقی تھا،شوہر سے شکایت کرتی تو وہ کہتے کہ تم بھی جواب میں گالیاں دیا کرو،یہ ہمارا کلچر ہے،نیز پردے کے سلسلے میں بھی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ میں نے ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا ،اسی وجہ سے میں دو سال سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں ۔

اب روز روز کے جھگڑوں سے  تنگ آکر  میں اور شوہر آپس کے منصوبے سے مذکورہ گھر چھوڑ  کر اپنا الگ کراۓ کا گھر لینا چاہ رہے ہیں ،جہاں ہم سکون سے رہ سکیں ،اور میں اپنی ساس کو بھی  خوشی سے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہوں ،نیز میرے والدین اس سلسلے میں  ہماری مکمل سپورٹ کرنے پر تیار ہیں،لیکن شوہر کے بھائیوں نے شوہر پر دباؤ ڈال کر  الگ گھر میں جانے سے سختی سے منع کردیا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا شوہر  اپنے بیوی بچوں کو  عزت  اور سکون کے ساتھ الگ گھر میں نہیں رکھ سکتا ہے؟شوہر پر بیوی بچوں کے حقوق کے سلسلے میں کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کو شرعاً اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے اپنے لیے  رہنے کی الگ اور مستقل جگہ کا مطالبہ کرے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ سائلہ کو مذکورہ گھر میں رہتے ہوۓ لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے مسلسل  پریشانیوں ، مشکلات،اور بداخلاقی پر مبنی رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،جس کی وجہ سے سائلہ کو ذہنی اور معاشرتی سکون میسر نہیں ہے،  اس لیے مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر سائلہ کے شوہر  پر لازم ہے  کہ  اپنی وسعت اور استطاعت کے مطابق  بیوی  بچےکے نان نفقے  اور دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ بیوی کے لیے الگ  گھر کا بھی انتظام کرے ،جس میں تمام ضروری سہولیات میسر ہو،تاکہ ایسے حالات آگے چل کر میاں بیوی کے درمیان باہمی ناچاقی اور  ذہنی تناؤ کا باعث نہ بنیں ۔

 رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کو گالی دینے کو کبیرہ گناہ قراردیا ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں،اور گالی دینےکو منافق کی نشانی قرار دیا ہے، حتي كه  مذاق میں بھی ایک دوسرے كو گالي دينے كو فحش گوئی كي وجه سے سخت ناپسند كيا گيا ہے، احادیث میں اس سے بھی منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم فحاشی اور فحش گوئی سے بچو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے،لہٰذا سائلہ  کے شوہر اور دیگر افراد پر اس قسم کے ناپسندیدہ اور  معاشرتی بگاڑ کا  باعث  بننے والے کاموں سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

باقی میاں بیوی کے حقوق سے  متعلق جاننے کے لیے مذکورہ کتابیں  ملاحظہ فرمائیں :

"تحفۂ زوجین" از مولانا اشرف علی تھانوی صاحب

مسندِ احمد میں ہے:

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن المؤمن ليس باللعان، ولا الطعان، ولا ‌الفاحش، ولا ‌البذيء."

(‌‌مسند المكثرين من الصحابة،‌‌مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه،60/7،ط:مؤسسة الرسالة)

وفیہ ایضاً:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: " أربع من كن فيه كان منافقا، أو كانت فيه خصلة من الأربع، كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا ‌خاصم ‌فجر."

(‌‌مسند المكثرين من الصحابة،مسند عبد الله بن عمرو بن العاص  رضي الله عنهما،380/11،ط:مؤسسة الرسالة)

شعب الایمان میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "‌إياكم ‌والفحش؛ فإن الله لا يحب الفاحش المتفحش..."

(الرابع والسبعون من شعب الإيمان وهو باب في الجود والسخاء،283/13،ط:مکتبة الرشد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك". 

(كتاب الطلاق، ،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثاني في السكني، 1/556، ط: رشيدية)

فتاوى شامی  میں ہے:

"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)... (وأهلها)... (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود... فلكل من زوجتيه مطالبته ببيت من دار على حدة."

"و في الرد (قوله خال عن أهله إلخ)؛ لأنها تتضرر بمشاركة غيرها فيه؛ لأنها لا تأمن على متاعها ويمنعهاذلك من المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلك؛ لأنها رضيت بانتقاص حقها هداية... (قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار... إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب في مسكن الزوجة، 599,600,601/3، ط: سعيد) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں