بیوی کا شوہر کے مال میں کتنا حق ہے اگر شوہر پیسے کم دیتاہو،تو شوہر کے رکھے ہوئے پیسوں سے بیوی کے لیے لیناجائز ہے ؟
1۔ شوہر پر بیوی کے لیے نفقہ اور سکنی اپنی استطاعت کے موافق لازم ہے ،اگر شوہر نفقہ اور سکنی کی ادائیگی میں اپنی استطاعت سے کم دیتا ہو تو بیوی کے لیے اس کے مال سے اپنے نفقہ کےلیے رقم لینا جائز ہے ،اس کے علاوہ شوہر کا بیوی کو کچھ نقدی دینا جیب خرچ کے لیے، وہ شوہرکے رضامندی پر موقوف ہے جتنا چاہے دے کوئی حد معین نہیں ہے ۔
2۔بیوی کے لیے شوہر کے رکھے ہوئے پیسوں میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ امانت ہے اور امانت میں دیانت سے کام لینا چاہئے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة."
(کتاب الطلاق ،الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الأول فی نفقة الزوجة ،ج:1،ص:544،ط:المطبعة الکبری الأمیریة)
وفیھا أیضا:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك."
(کتاب الطلاق ،الباب السابع عشر فی النفقات ،الفصل الثانی فی السکنی،ج:1،ص:556،ط:المطبعة الکبری الأمیریة)
تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے :
"قال رحمه الله (الإيداع هو تسليط الغير على حفظ ماله الوديعة ما يترك عند الأمين) هذا في الشرع وفي اللغة: الوديعة مشتقة من الودع، وهو مطلق الترك."
(کتاب الودیعة ،ج:5،ص:76،ط:المطبعة الکبری الأمیریة ،بولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102247
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن