بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی رضامندی کے بغیر بڑے غیرشادی شدہ بھائی کو گھر میں ٹھہرانے کاحکم


سوال

شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے بر خلاف اپنے صحت مند اور جوان بڑے بھائی کو اپنے گھر میں لا کر ساتھ رکھنا چاہتا ہے،جو کہ نہ اپنی شادی کرتا ہے، اور نہ ہی کوئی نوکری یا کاروبار کرتا ہے، شوہر کی کم آمدن کے باعث بمشکل گزر بسر ہوتا ہے، جب کہ شوہر کے یہ بھائی ماضی قریب میں ساتھ رہتے ہوئے میاں بیوی اور بچوں کے درمیان فسادات کا باعث بھی بنتے رہے ہیں، اور بیوی بچے ان کے رویہ کی وجہ سے سخت خوفزدہ، غیر محفوظ اور پریشانی سے دوچار تھے، کیوں کہ کام کاج نہ کرنے کی وجہ سے وہ دن رات گھر میں رہتے  ہے،حتیٰ کہ شوہر کی غیر موجودگی میں بھی گھر میں رہتےہے، شوہر کا کہنا ہے کہ وہ میرا بڑا بھائی ہے، اس کا مجھ پر حق بنتا ہے، لہذا میں اسے ساتھ رکھوں  گا تاکہ اس کی خوراک، پوشاک اور صحت کا میں خیال رکھ سکوں،

کیا شوہر کا یہ زبردستی کا عمل درست ہوگا؟ شوہر اور بیوی کے لۓ شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً مذکورہ عورت کو اپنے دیور کے ساتھ رہنے میں پریشانی اور خوف کا خطرہ ہے،اور وہ اس کے ساتھ ایک گھر میں نہیں رہنا چاہتی تو  اس کے شوہرپر لازم ہے کہ اپنی بیوی کوا یک ایسا کمرہ مہیا کرے کہ جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو،اور اس میں کچن،غسل خانہ اور واش روم کا بھی الگ انتظام ہو یہ بیوی کاجائز حق ہے اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتی ہے،نیز  عورت کے لیے اس کا دیور بھی نامحرم اور اجنبی شخص  کی طرح ہے اور جس طرح اجنبی کے ساتھ خلوت(تنہائی میں بیٹھنا) ناجائز اور حرام ہے اسی طرح دیور سے بھی پردہ ہے اور اس کے ساتھ تنہائی میں رہنا فتنہ کا باعث ہے ۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عقبة بن عامر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إياكم والدخول على النساء»، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو، قال: «الحمو الموت» وفي الباب عن عمر، وجابر، وعمرو بن العاص: حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان»، " ومعنى قوله: «الحمو»، يقال: هو أخو الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها. "

(ابواب الرضاع،باب ماجاء في كراهية الدخول علي المغيبات ج:3،ص:466،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)۔۔(وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية ۔"

(کتاب الطلاق ،باب النفقۃ ج3ص599۔601 ط:سعید)

وفيه أيضا:

"الخلوۃ بالأجنبیة حرام.

(کتاب الحظر والإباحة ج: 6، ص: 368، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں