بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی خواہشات ختم ہونے کی صورت میں مشت زنی کرنے کا حکم


سوال

اگر بیوی کی طبیعت ٹھیک نہ رہتی ہو ،یا اسکے جنسی جذبات ختم ہو چکے ہوں ،یا اکثر اس کا  دل نہ  چاہ  رہا  ہو ،تو  کیاایسی صورت میں  شوہر بیوی کی اجازت  سے یا اجازت کے بغیر مشت  زنی کر سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام میں انسانی  زندگی کے گزربسرمیں پیش آمدہ تمام مسائل کے متعلق راہ نمائی    موجودہے،اس لیے  اسلام نے طبع انسانی کے تمام   فطری تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے متعدشادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی کی طبعیت کی مسلسل خرابی یا عدم جذبات کی وجہ سے  مذکورہ شخص فطری  خواہش  پوری نہ کرنے کی مشکلات کا شکارہو،توشرعاًاس کی وجہ سے مشت زنی جیسے بدترین عمل کی قطعاًاجازت نہیں ہے،بل کہ   ایسی صورت میں اسے دوسری شادی کرنی چاہیے ، تاہم اگربے حد ضرورت ہواور دوسری شادی کی استطاعت بھی  نہ ہو، تو اپنی خواہش پوری کرنے کےلیے اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے کی اجازت نہیں ہے،البتہ بیوی کی پنڈلی وغیرہ پر عضو رگڑ کر خواہش پوری کرسکتا ہے، لیکن عام حالات میں اسے عادت بنانا مکروہ  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني ‌بيد ‌زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة: أنه يكره، ولعل المراد به كراهة التنزيه، فلا ينافي قول المعراج: يجوز، تأمل ...لأن فعله ‌بيد ‌زوجته ونحوها فيه سفح الماء،لكن بالاستمتاع بجزء مباح، كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين، بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه، وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا، ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة، اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما، هذا ما ظهر لي.والله سبحانه أعلم."

 (كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف،ج:2،ص:399، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں