میری شادی کو چوبیس سال ہو چکے ہیں، میرا شوہر ظالم اور شکی انسان ہے،بچوں کے اخراجات بھی پورے نہیں کرتا ہے،اخراجات کی وجہ سے اکثر وبیشتر ہمارے درمیان جھگڑے رہتے ہیں ،تقریباًچھ مہینے پہلے جھگڑے کے دوران میں نے غصہ میں کہا کہ مجھے طلاق دے دو میرے شوہر نے کہا: جا ،سب سے کہہ دے میں نے تجھے دے دی ، میرے شوہر نے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا ؛اسی لیے میں نے نظر انداز کردیا،ایک مہینہ پہلے دوبارہ جھگڑے کے دوران میں نے کہا :نہیں رکھ سکتے تو طلاق دے دو،تو میرے شوہر نے کہا وہ تو تجھے ہوگئی ہے، تو کیا اس صورت حال میں طلاق ہوتی ہے یا نہیں۔
صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی کے صریح طلاق (مجھے طلاق دے دو)کے مطالبہ پر یہ "میں نے تجھے دےدی" کہنےسے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی،اس کے بعد ساتھ رہتے رہے اورشوہر نےعدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلیا تھا تو نکاح برقرار رہا۔رجوع ہونے کی صورت میں بیوی کی جانب سے دوسری دفعہ طلاق کے مطالبہ کے وقت شوہر کا یہ کہنا کہ وہ تو تجھے ہوگئی ہے تو اس جملہ سے اگرسابقہ طلاق کی طرف اشارہ تھا تو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہو ئی ،اور اگرشوہر کی نیت اس سے مزید طلاق دینے کی تھی تو اس سے ایک طلاق مزید واقع ہوگئی ہے،شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہے عدت کےبعد نکاح ختم ہو جائے گا،پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیےنئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وفي المنتقى امرأة قالت لزوجها طلقني فقال الزوج قد فعلت طلقت".
(كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،الفصل الأول في الطلاق الصريح،ج:1،ص:356،ط: رشيدية)
وفيه ايضا:
"ولو قالت لزوجها طلقني ثلاثا فأراد أن يطلقها فأخذ إنسان فمه بيده فلما رفع يده قال دادم فإنها تطلق ثلاثا هكذا حكى فتوى شمس الإسلام كذا في الذخيرة".
(كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،الفصل الأول في الطلاق الصريح،ج:1،ص:360،ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144409101473
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن