بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر سے بلا کسی وجہ کے ناراض ہونے کا حکم


سوال

میری شادی کو پچاس سال کا عرصہ ہوگیا ہے ،دو بیٹے اور ایک بیٹی تینوں شادی شدہ ہیں ،دس سال سے میری بیوی مجھ سے بات چیت نہیں کرتی اور میرے بیٹوں کی بیویوں کو بھی رات دن لڑ اکر الگ رہنے پر مجبور کر دیا ، میں اپنا کھانا بھی خود پکاتا ہو ، اس دفعہ بھی رمضان المبارک کے مہینے میں روزے افطار وسحری الگ الگ کمروں میں کی ، عید پر بھی ملاقات سلام دعا تک نہیں کی ، اپنے کمرے کا دروازہ بند رکھتی ہے ، جب کہ گھر کے تمام اخراجات میں خود اپنی کمائی سے ادا کرتا ہوں ، امریکہ تک علاج کے لئے اس کو لے گیا ، پاکستان میں بھی بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج کرایا ، گاڑی بھی گھر کے لئے اس کو دی ، الحمدللہ اللّٰہ نے مجھے دین کی سمجھ عطا کی قرآن فہمی دی  ،آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں مجھے مشورہ دیں، کہ مجھے اب کیا کرنا چاہئے بستر تو سالوں سے الگ کر لیا ہے، احباب کو بھی بیچ میں ڈالا مگر اس کے رویئے میں کوئی کمی نہیں آئی ۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نےمیاں بیوی کی ایک دوسرے پر حقوق  مقررکیے ہے،جن کی ادائیگی جانبین کے ذمہ لازم ہے،بیوی پر شوہر کی اطاعت اور اس کے   جائز مطالبات ماننا لازم ہے ورنہ گناہ گار ہوگی، میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے،  چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘.  اسی  طرح شریعت نے شوہر کو بھی پابند کیا ہے،کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھے،اس کے رہائش،نان نفقہ، اپنے دستور کے مطابق ادا کرے،بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو افضل صدقہ کیا گیا ہے،لہذا میاں بیوی دونوں کوایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئےایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

 صورتِ مسئولہ میں بیوی اگردس سال سے بلا عذر شوہر سے بات نہیں کر رہی اور نہ اس کا مزید کوئی  حق ادا کر رہی ہے،تو شدید گناہ کے مرتکب ہو رہی ہے،اور اگر یہ ناراضگی کسی سبب کے باعث ہے،اور بیوی کا کوئی مطالبہ ہو،توشوہرغور کرے،اگر وہ مطالبہ شرعاً جائز ہو اور شوہر پورا کر سکتا ہو،تووہ پوراکر کے بیوی کو راضی کرنے کی کوشش کرے،لیکن اگر وہ بغیر کسی وجہ  تعلقات قائم نہیں رکھنا چاہتی،اور آپ کو اس عمر میں اپنی خدمت/ضرورت کے لیے زوجہ کی ضرورت ہے،تو آپ دوسرے شادی   کر سکتے ہیں،شرعاً آپ گناہ گار نہیں ہوں گے،اب جب کہ شادی کو  پچاس سال  ہو گئے ہیں،تو اس عمر میں طلاق دے کر علیحدہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت. رواه أبونعيم في الحلية. ‌‌

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها. رواه الترمذي.

وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة. رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:971،972، ط: المكتب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها، وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش؛ لقوله تعالى: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] قيل: لها المهر والنفقة، وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل: {فإن أطعنكم فلاتبغوا عليهن سبيلاً} [النساء: 34]، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج".

 (كتاب النكاح، فصل المعاشرة بالمعروف، ج:2، ص:334، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں