بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا بلاوجہ میکے میں بیٹھ جانا


سوال

میری بیوی تقریباً دو سال سے مجھ سے ناراض ہو کر میکے میں بیٹھ گئی ہے،میں حسبِ توفیق اس کے اور بچوں کے اخراجات پورا کرتاہوں لیکن وہ پھر بھی راضی نہیں ہوتی،میرے چار بچے ہیں دو بیٹے ایک ڈیڑھ سال کا اور دوسرا آٹھ سال کا اور دو بیٹیاں ایک دس سال کی اور دوسری بارہ سال کی ہے،میرے سسرال والے مجھے بچوں سے ملاقات کرنے بھی نہیں دیتے،اور ضد میں ایک بیٹے کا داخلہ اہل حدیث کے مدرسہ میں کروایا ہے،بیوی نہ ساتھ رہتی ہے اور نہ خلع لیتی ہے،میں نے اصلاح کی کوشش کی  لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوتے،اب پوچھنایہ ہےکہ:

1۔ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیئے؟

2۔اگر جدائی ہوتی ہے تو بچے کس کے پاس رہیں گے؟

3۔ ان حالات میں دوسری شادی کرسکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ شادی کے بعد عورت کا  بلاوجہ شوہر سے ناراض ہوکر میکہ میں  رہنا اور شوہر کے بلانے کے باوجود نہ آنا  سخت گناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں  ایسی عورت کے بارے میں   وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں  برداری  اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت  بیان  کی گئی ہے،      لہذا سائل کی بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس آجائے، اور شوہر بھی لازم ہے کہ   وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے،  قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں عورتوں کے حقوق بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، شوہر پر  عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے، نیزاس معاملہ کے حل کے لیے سائل کو چاہیئے کہ دونوں خاندانوں کے معزز افراد کو بیچ میں ڈال کر افہام وتفہیم سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔

 2۔جدائی کی صورت میں  لڑکےکی  سات سال کی عمر تک اور لڑکی کی نوسال کی عمر تک پرورش کاحق ان کی والدہ کو حاصل  ہوتاہے بشرطیکہ وہ عورت بچوں کے کسی غیرمحرم سے نکاح نہ کرے ،جب بچے مذکورہ عمرکو پہنچ جائیں تو پھر باپ کو لینے کاحق حاصل ہوتا ہے۔

 1۔اگر آپ  دو بیویوں کے جسمانی اور مالی حقوق ادا کرنے اور ان دونوں کے درمیان برابری رکھنے کی استطاعت  رکھتے ہیں تو  آپ  کے لیے دوسری شادی کرنا شرعاً جائزہوگا، شریعتِ مطہرہ میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے، لیکن اس وقت جب کہ شوہر تمام بیویوں کے حقوق میں برابری کرے، البتہ اگر موجودہ بیوی سے تمام ترکوششوں کے باوجود نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہوتو اس صورت میں دوسری شادی کرنے کے لیے  اس کو باعزت طریقہ سے طلاق دیکر دوسری شادی کریں،بلاوجہ اس کو لٹکا کر نہ رکھیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:3)

اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے.( بیان القرآن )

مشکوٰۃ شریف  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»". 

(  باب عشرۃ النساء،ج:2،ص:280، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے  تو فرشتے  اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے  رہتے ہیں۔

(مظاہر حق، ج:3 ،ص:358، ط:  دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.

(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي. ۔۔(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."

( کتاب الطلاق باب الحضانۃ ج3،ص566 ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(ولا بأس به عند الحاجة للشقاق بعدم الوفاق)

 وفي الحاشية:"لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم، وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أهلهما لیصلحوا بینهما، فإن لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع". 

(كتاب الطلاق،باب الخلع ج:3،ص:441،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں