بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

 میرے شوہر اور کے گھر والوں نے شادی کے وقت جھوٹ بولا تھا،کہ میرے شوہر کا کاروبار ہے ،اور اپنا گھربھی  ہے،جبکہ حقیقت مکمل اس کے برعکس تھی،نہ کوئی کاروبار تھا ،اور نہ ہی اپنی رہائش  کا گھرتھا،شادی کے بعد شوہر کچھ نہیں کماتے تھے، تو میں نے نوکری شروع کردی، اور کرایہ کے گھر میں رہائش اختیار کی،دس سال  گذرنےکے بعد مجھے وراثت میں  گھر ملا ،جس میں میں میرےبچے اور شوہر رہتے ہیں،میرے شوہر کو نوکری ملتی بھی ہے ،تو کچھ عرصہ کے بعد بنا کسی عذر کے چھوڑ دیتے ہیں،گھر اور بچوں کی طرف سے  کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتے،اورگزشتہ 13 سال سے وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں،ایسی صورتحال میں کیا بیوی اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ یا قطع تعلقات اختیار کر سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کا  شدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق  کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت کسی مجبوری کے  بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوش بو حرام ہے،پھر یہ بات بھی واضح رہے کہ ازدواجی زندگی کے  پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، بلا کسی ضرورت کے بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سنجیدگی سےاپناصحیح علاج کروائے اور حق زوجیت ادا کرے، اسی طرح شوہر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے  کھانے پینے،رہائش  اور   بچوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرے ،اور اگرشوہر کام پرنہیں جاتا اس کے اسباب معلوم کرکے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے، اگر وہ کچھ کمائے گا نہیں تو بیوی بچوں کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، جب کہ بیوی بچوں کا نفقہ شرعاً اس پر واجب ہے ، بہر حال بیوی کو چاہیے کہ شوہرکو نرمی سے سمجھائے، اگر اس کا سمجھانا اثر نہ کرے ،تو  دونوں خاندانوں کے  سمجھ دار اور دیانت دار بڑوں کوبیچ میں ڈال کرافہام وتفہیم کے ساتھ اس مسئلہ کوحل  کرانےکی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود بھی مصالحت کی کوئی راہ نہ بن پائے ،اورسائلہ کا شوہر واقعۃً  باوجود قدرت کے   نان ونفقہ ادا نہیں کرتا ،اور نہ حقوق زوجیت ادا  کرنے کے قابل ہو،اور سائلہ کےلیے اسی حالت میں عفت وپاک دامنی کے ساتھ  رہنا مشکل ہو،  جس کی وجہ سے جدائی ناگزیرہو ،تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے شوہرسے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے  ، تاہم اگرشوہرطلاق نہ دےتوسائلہ اپنے مہرکی معافی کے عوض شوہرکوخلع  لیے آمادہ کرے ،جس کے بعد عدت گزار کر سائلہ کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا."(سورة النساء، الآیۃ،35)".

ترجمہ:"اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہومرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو ،اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں ۔ "

(بیان القرآن:ج،1:ص:355)

         سنن أبی داود  میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق»."

(كتاب الطلاق، باب في كراهية الطلاق، ج:2، ص:255، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت)

وفیہ ایضاً:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»."

(باب في الخلع، ج:2، ص:268، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت

فتاوی شامی میں ہے:

''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ .''

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)

خلاصہ یہ ہے کہ اگر شوہر نان و نفقہ نہیں دیتا ور حقوق بھی ادا نہیں کرتا تو سائلہ شوہر سے طلاق یا خلع لے سکتی ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں