سن 2012 میں والد صاحب کی وفات ہوئی، وہ ترکہ میں (املاک بیچ کر) ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چھوڑ گئے، ان کی ایک بیوہ، تین شادی شدہ لڑکوں اور ایک شادی شدہ لڑکی، جو ان دنوں ایک طلاق کے بعد والد کے گھر پر ہی تھی، کو کتنا حصہ ملے گا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد صاحب کے انتقال کے وقت، ان کے والدین میں سے کوئی حیات نہ تھا، اور مذکورہ افراد (ایک بیوہ، تین بیٹے، اور ایک بیٹی)کے علاوہ کوئی اور وارث (دوسرے بیٹے، بیٹیاں) نہیں تھے،اسی طرح ان کے بعد اگر ان کی کسی اولاد یا بیوہ کا انتقال نہیں ہوا ہے،تو ترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقۂ کار یہ ہے ؛ کہ سب سے پہلے والد مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کاخرچہ نکالنے کے بعد اور اگر ان پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے بعد، اور اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کی ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد، باقی ترکہ کو اس ترتیب سے ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا؛ کل مال کے آٹھ حصے کرکے بیوہ کو ایک حصہ، تینوں بیٹوں کو دو، دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم والد:8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
1 | 2 | 2 | 2 | 1 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو 12.5فیصد، ہر بیٹے کو 25فیصد اور بیٹی کو 12.50 فیصد ملے گا، اور ایک کروڑ ساٹھ لاکھ (1،60،00000) روپے میں سے بیوہ کو بیس لاکھ ( 20,00000) روپے، ہر ایک بیٹے کو چالیس لاکھ (40,00000 ) روپے اور بیٹی کوبیس لاکھ ( 20,00000)روپے ملیں گے۔
تاہم واضح رہے کہ یہ تقسیم اسی وقت کار آمد ہے، جب کہ ورثاء کی تعداد اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی تفصیل سوال میں درست درج کی گئی ہو، چناں چہ اگر مرحوم کے والدین میں سے کوئی اس کے انتقال کے وقت حیات تھا، یا اس کی مندرجہ بالا اولاد (تین بیٹے، ایک بیٹی) کے علاوہ کوئی اور اولاد بھی تھی، یا مرحوم کی ایک سے زائد شادیاں تھیں اور وہ بیویاں یا ان کی اولادیں مرحوم کی وفات کے وقت زندہ تھیں؛ تو اس کی تفصیل درج کر کے دوبارہ سوال پوچھ لیا جائے، تاکہ درست جواب دیا جاسکے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101903
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن