بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کی بینک میں جمع شدہ رقم پر زکات


سوال

ایک بیوہ ہے، جس کی آمدنی کا ذریعہ فکسڈ ڈپازٹ سے موصول شدہ رقم ہی ہے، اس جمع شدہ رقم پر زکوۃ لاگو ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بینک میں رقم جمع کرکے اُس پر اضافی رقم لینا سود ہے، لہٰذا مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ہی درست نہیں ہے، اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کرنا چاہیے۔ باقی  یہ اضافی رقم اگر لے  لی ہے تو اسے فقراء پر بلانیتِ ثواب تقسیم کرنا واجب ہے، اس پر زکات نہیں ،البتہ سود کے علاوہ بینک میں جو اصل رقم پڑی ہے، اگر وہ نصاب کے بقدرہوتو سال گزرنے پر اس کی زکات دینا ضروری ہوگا۔

تفسیر روح البیان میں ہے:

"ويربي الصدقات يضاعف ثوابها ويبارك فيها ويزيد المال الذي أخرجت منه الصدقة- روى- عنه صلى الله عليه وسلم (ان الله يقبل الصدقة ويربيها كما يربى أحدكم مهره) وعنه ايضا (‌ما ‌نقصت ‌زكاة ‌من ‌مال ‌قط)."

(سورة البقرة، ٤٣٦/١، ط:دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"‌‌(باب زكاة المال).أراد بالمال غير السوائم والألف واللام فيه عائد إلى المذكور في قوله - عليه الصلاة والسلام - «هاتوا ربع عشر أموالكم» لأن المراد به غير السائمة لأن زكاة السائمة غير مقدرة بربع العشر قال - رحمه الله - (يجب في مائتي درهم وعشرين دينارا ربع العشر) أي خمسة دراهم في مائتي درهم ونصف دينار في عشرين دينارا لما روينا ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «وفي الرقة ربع العشر» وقال - صلى الله عليه وسلم - «ليس فيما دون خمس أواق صدقة» والأوقية كانت في أيامهم أربعين درهما."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ٢٧٦/١، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں