بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ عورت کا دوران عدت گھر چھوڑنے کاحکم


سوال

عورت کے لیے عدت کے دوران کاغذوں کی مجبوری کی وجہ سے سفر کرنا جائز ہے ؟مثلاً ایک عورت کے امریکہ کے کاغذات بنے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان میں چھ ماہ سے زیادہ نہیں رک سکتی اور پاکستان آئے ہوئے اسے پانچ ماہ ہو گئے ہیں ،اب اس کے خاوند کا انتقال ہو گیا ہے، اس صورت وہ سفر کرکے امریکہ جا سکتی ہے؟ اس کے بیٹے سارے امریکہ میں ہیں، اور اس کے خاوند کی ایک ذاتی رہائش امریکہ میں بھی ہے ،نہ جانے کی صورت کاغذات ضائع ہو جائیں گے اور کافی مالی نقصان ہو گا۔

جواب

واضح رہے کہ بیوہ عورت پر عدت اپنے  شوہر کے گھر میں ہی گزارنالازم ہے، کسی شدید عذر کے بغیر عدت کے دوران اس گھر سے باہر نکلناجائز نہیں ہے، البتہ کسی عذر شدید کے وجہ  سے کسی اور جگہ عدت گزار سکتی ہے ،  جیسے  گھر کے گرنے کا خطرہ ہو ،یا سامان کے چوری  یاضائع  ہونے کاخطرہ ہو،یا گھر کےکرایہ کا بندوبست  نہ ہو، یا عورت اس قدر بیمار ہو کہ جس سے جان کی ہلاکت کا خطرہ ہو، یا مرض میں اضافہ یا شدید تکلیف میں مبتلا ہوجانے کا غالب گمان ہو ،یا عدت والا گھر کسی ایسے علاقہ میں ہو جہاں معتدہ عورت اور اس کی بچیوں کی جان و مال یا عزت کا خطرہ ہو۔تو  ایسی  صورت میں معتدہ کے لئے  کسی اور جگہ عدت گزارنے کی گنجائش ہے، کاغذات  کے ضائع ہو جانے کے اندیشہ  سےمذکورہ عورت  کے لیےاس  عذر کی بنیاد پر اپنے بچوں کے ساتھ شوہر  کے دوسرے ملک والے گھر  میں عدت گزارنے کی  اجازت نہیں ہے ۔

در مختار میں ہے:

"(و تعتدان) أي معتدة طلاق و موت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

(کتاب النکاح،باب العدۃ،ج:3،ص:536،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.وإذاانتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه منزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:325،326،ط:المکتبۃ الوحیدیۃ پشاور)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں