بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ ، تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

1- شوہرکاانتقال ہوا،بیوہ، تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں وراثت تقسیم کیسے کی جاۓ۔

2- بیوہ کی سابقہ شادی سے ایک بیٹامرحوم جب کہ ایک بیٹی حیات ہے، تو کیا ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے اگر حصہ ہے تو تقسیم کیسے کی جاۓ جب کہ بیوہ اور اس کامرحوم بیٹا اور بیٹی تینوں اپنے والد کی وراثت کی تقسیم کر چکے ہیں۔ راہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم شوہرکے میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنےکے بعد،اگرمرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اس کوادا کرنے کے بعد،اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کومابقی مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے ک بعدباقی کل مال کو 64 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 8 حصے،ہرایک بیٹے کو 14 حصےاور ہرایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت(شوہر): 8/ 64

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
814141477

فیصد کے حساب سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5فیصد،ہرایک بیٹۓ کو 21.875 فیصد،ہرایک بیٹی کو 10.937فیصد ملےگا۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالاتقسیم اس وقت ہے جب مرحوم کے والدین میں سے کوئی حیات نہ ہو۔

2-صورتِ مسئولہ میں بیوہ کے سابقہ شوہر کی اولاد کا مرحوم کی میراث میں سے کوئی حق وحصہ نہیں ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں