بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ ، والد اور والدہ کے درمیان میراث کی تقسیم


سوال

ایک آدمی صاحب جائیدادفوت ہوچکاہےاولادنہیں ہےایک بیوہ ہے اور والدین حیات ہیں ، ان کے علاوہ سوتیلے بھائی ، سوتیلی بہنیں ایک چچا اور پھوپھیاں  ہیں  ،دو چچے سوتیلے ہیں اور کچھ سوتیلی پھوپھیاں ہیں اس کی جائیداد اور نقدی کیسے تقسیم جائے؟

جواب

صورت مسئولہ میں حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے  کے بعد مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 12 حصوں میں تقسیم کر کے 3 حصے مرحوم کی بیوہ کو اور 2 حصے مرحوم کی والدہ کو اور 7 حصے مرحوم کے والد کو ملیں گے۔اور والد چوں کہ عصبہ ہے اس لیے  ان  کی موجودگی میں باقی  رشتہ دار  محروم ہوں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت :12 

بیوہ والدہ والد بھائی/ بہن
327محروم

یعنی 100 روپے میں سے 25 روپے مرحوم کی بیوہ کو اور 16.66 روپے مرحوم کی والدہ کو اور 58.33روپے مرحوم کے والد کو ملیں گے۔

درالمختار میں ہے:

"فالأول الأب وله ثلاثة أحوال .......والتعصيب المحض وذلك أن لا يخلف غيره فله جميع المال بالعصوبة."

(کتاب الفرائض ، الباب الثاني فی ذوي الفروض جلد ۶ ص : ۴۴۸ ط : دارالفکر)

السراجی فی المیراث میں ہے:

"اما الاب فله احوال ثلاث :.....و التعصيب المحض و ذلك عند عدم الولد و ولد الابن و ان سفل ."

(باب معرفة الفروض و مستحقیها ص : ۱۴ ، ۱۵ ط : مکتبة البشری)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310100919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں